سلیمان عبدالملک کا ایک لڑکا آپ کے پاس آیا جس کی زمین دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے ضبط کر لی تھی۔ اس نے آ کر کہا: امیرالمومنین! آپ مجھے میری زمین واپس کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ’’معاذ اللہ میں تم کو وہ زمین کیوں نہ لوٹاؤں اگر تمہارے پاس اس کی ملکیت کی کوئی دستاویز ہے؟‘‘ اس نے اپنی آستین سے دستاویز نکال کر آپ کو دی۔
حضرت عمرؒ نے دستاویز کو دیکھا اور فرمایا: اس دستاویز کی زمین کس کی ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’فاسق ابن حجاج کی۔‘‘ فرمایا: پھر تو مسلمان اس کے حق دار ہیں۔ اب اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے کہا: ’’اچھا، آپ مجھے میری دستاویز واپس کر دیں۔‘‘ سیدنا عمرؒ نے فرمایا: میں نے یہ دستاویز تم سے مانگی نہیں تھی، تم نے خود دی ہے، لہٰذا اب میں تمہیں یہ واپس نہیں کروں گا تاکہ تم کبھی بھی یہ غلط مطالبہ نہ کر سکو۔ مختصر یہ کہ حضرت عمرؒ نے سلیمان کے اس بیٹے کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو دیگر امراء کے ساتھ کیا تھا وہ آپ کے سامنے رویا بھی مگر پھر بھی آپ نے انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپؒ کا غلام مزاحم یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا جب وہ چلا گیا تو مزاحم نے آپؒ سے کہا: ’’امیرالمومنین! آپ سلیمان کے بیٹے کے ساتھ یہ برتاؤ کر رہے ہیں اور آپ کو اس کے رونے پر بھی ترس نہیں آیا‘‘۔ آپؒ نے جواب میں فرمایا ’’میں سلیمان کے اس بیٹے کے لیے اسی قدر شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جس قدر اپنی اولاد کے لیے رکھتا ہوں؟ لیکن کیا کروں، معاملہ دین کا ہے، کل اللہ کو حساب میں نے دینا ہے۔‘‘