حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عدل و انصاف کے آفتاب سے اموی امراء کی ظلم و ستم کی شبِ تاریک کی ظلمت دور ہونے لگی تو انہوں نے آپ کے خلاف سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا۔ جب انہیں دوسرے راستوں سے کامیابی نظر نہ آئی تو انہوں نے سب سے پہلی سازش یہ کی کہ ان کی پھوپھی فاطمہ کو ان کے خلاف مشتعل کیا اور اس کے کان بھرے۔ فاطمہ بنت مروان ایک بلند پایہ اور خود دار خاتون تھیں۔
جب سب امراء نے یک زبان ہو کے حضرت عمرؒ کے خلاف ان کے کان بھرے تو انہوں نے حضرت عمرؒ کے پاس پیغام بھیجا کہ میں ایک نہایت اہم کام کے سلسلے میں تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ یہ پیغام بھیج کر فاطمہ گھوڑے پر سوار ہو کر آپؒ کے پاس پہنچیں۔ دربان ان کو اندر لے آیا۔ یہاں تک کہ آپ حضرت عمرؒ کے خیمہ تک پہنچ گئیں۔ حضرت عمرؒ نے مزاح کے طور پر پوچھا: کیا آپ نے دروازے پر پہرے دار نہیں دیکھے؟ فاطمہ بنت مروان نہایت خود دار اور سنجیدہ خاتون تھیں انہیں مزاح اور دل لگی سے کوئی تعلق نہ تھا انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں! دیکھے ہیں اور یہ دربان تو ان کے پاس بھی دیکھے ہیں جو تم سے بہتر تھے۔ آپ نے دیکھا کہ پھوپھی کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہیں، لہٰذا آپ نے مزید کوئی بات نہ کی اور ان کے تشریف لانے کا مقصد پوچھا۔ فاطمہ بنت مروان نے اپنے آنے کا سبب بتایا۔ آپ نے جواب میں عرض کیا: پھوپھی صاحبہ! جب سرکار دو عالمؐ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں کو ایک آباد گھاٹ پر چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ پھر اس امت کا منتظم ایک ایسا شخص ہوا جس نے اس میں کمی بیشی نہ کی۔ پھر یکے بعد دیگرے مختلف حضرات اس امت کے منتظم ہوئے لیکن بعد میں آنے والے کچھ منتظمین نے اس میں کمی بیشی کر دی، بخدا! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی عطا فرمائی تو میں اس انتظام کو سابقہ حالت پر لے آؤں گا۔ آپ کی بات سن کر پھوپھی صاحبہ نے کہا: پھر تو تمہارے نزدیک ان خلفاء کو برا نہ کہا جائے۔ آپ پھوپھی صاحبہ کی بات سمجھ گئے کہ یہ کیا کہنا چاہتی ہیں۔
آپ نے فرمایا: انہیں کون برا کہتا ہے؟ ایک شخص اپنا حق حاصل کرنے کے لیے میرے پاس آتا ہے تو میرے لیے ضروری ہے کہ میں اس کو اس کا حق دلاؤں۔ پھوپھی صاحبہ نے کہا: آپ کے اعزاء و اقارب آپ کا شکوہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے ان سے وہ چیزیں چھین لیں جو پہلے خلفاء نے ان سے نہیں چھینی تھیں۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا ’’میں نے ان کا حق تو نہیں لیا؟‘‘
وہ بولیں: یہ درست ہے لیکن میں نے انہیں آپ کے خلاف سخت باتیں کرتے ہوئے سنا ہے اور مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ کوئی سخت دن آپ کے پاس نہ لے آئیں۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؒ جوش میں آ گئے اور فرمایا: ’’مجھے ہر سخت دن کا ڈر ہو اور روز قیامت جیسے دن کا ڈر نہ ہو۔۔۔ ایسا ممکن نہیں میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے قیامت کے دن کی سختی سے محفوظ فرمائے۔‘‘
حضرت عمرؒ کی یہ بات سن کر پھوپھی نے اٹھ کر جانا چاہا تو آپؒ نے انہیں بٹھا لیا۔ اب آپ نے اپنی بات مزید پھوپھی صاحبہ کے ذہن میں اتارنے کے لیے ایک اشرفی اور ایک آگ کا انگارہ منگوایا۔ اس اشرفی کو انگارے پر رکھا جس سے وہ اشرفی سرخ ہو کر پگھل گئی اور اس پر جو کچھ لکھا ہوا تھا وہ سب ختم ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: پھوپھی جان! کیا آپ کو اپنے اس بھتیجے پہ اس جیسی اشرفی سے رحم نہیں آتا۔۔۔؟
یہ دیکھ کر پھوپھی صاحبہ خاموش کھڑی ہو گئیں اور حضرت عمرؒ کی یہ بات ان کے دل میں جاگزیں ہو گئی اور وہ خوفزدہ ہوگئیں۔ پھر آپؒ نے اپنی پھوپھی کی خاموشی کو دیکھ کر کہا: ’’پھوپھی صاحبہ! بات کریں میں کوئی غلط بات تو نہیں کہہ رہا؟‘‘ وہ بولیں ’’عمر! میں تم سے تبادلہ خیالات کرنے کے لیے آئی تھی لیکن تمہارا یہ انداز گفتگو سن کر مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہیں رہی۔‘‘ چنانچہ وہ اٹھ کر واپس چلی آئیں اور مزید کوئی بات نہ کرسکیں۔ واپسی تک ان کے ذہن میں سونے کی آگ بھڑک رہی تھی۔
اور وہ سونے اور سونے والوں کے درمیان مقابلہ کر رہی تھیں۔ جب وہ واپس ان لوگوں کے پاس پہنچیں جنہوں نے انہیں مشتعل کرکے حضرت عمرؒ کے پاس بھیجا تھا تو ان کو اکٹھا کرکے کہنے لگیں: ’’تم اپنے فرزند عبدالعزیزؒ کا نکاح جب آل عمرؒ میں کرتے ہو تو پھر جب اس کی اولاد وہ کچھ کرتی ہے جو فاروق اعظمؓ نے کیا تو بے صبری کا اظہار کرتے ہو؟ عمر بن عبدالعزیز جو کچھ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اس پر صبر کرکے اپنے کام کے انجام کا ذائقہ چکھو۔