جس وقت دمشق میں سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی بیعت ہو رہی تھی اور لوگ ان کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنا خلیفہ تسلیم کر چکے تھے کیونکہ وہ ان کی نیکی اور طبیعت کی پاکیزگی سے بخوبی آشنا تھے اور سمجھتے تھے کہ ایسا شخص رعایا کے مفاد کو مدنظر رکھے گا نہ کہ اپنے ذاتی مفاد کو، اس وقت عبدالعزیز بن عبدالملک جو کہیں باہر تھا اور اس کو سلیمان کی عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں وصیت کا کوئی علم نہ تھا۔
اس نے سلیمان کی موت کی خبر سن کر اپنے ساتھیوں سے اپنی بیعت کروا لی کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو خلافت کا ایک امیدوار سمجھتا تھا۔ ساتھیوں سے بیعت لے کر وہ دمشق کے ارادے سے بڑھا۔ راستے میں اسے سلیمان کی وصیت اور سیدنا عمر ابن عبدالعزیزؒ کی بیعت کا حال معلوم ہو گیا۔ یہ سن کر وہ سیدنا عمر ثانیؒ کے پاس پہنچا۔ حضرت عمرں کو اس کے بیعت لینے کی خبر ہو چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس سے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنی بیعت لے کر دمشق میں داخل ہونا چاہتے تھے۔عبدالعزیز نے کہا: مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ سلیمان نے آپ کو خلیفہ نامزد کر دیا ہے۔ اس لیے مجھے اندیشہ تھا کہ لوگ خزانہ وغیرہ لوٹ لیں گے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا: اگر لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لیتے اور تم بار خلافت کو سنبھال لیتے تو میں تم سے کوئی جھگڑا نہ کرتا اور خلافت کے بار دوش سے سبکدوش ہو کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتا۔ عبدالعزیزؒ نے کہا: ’’خدا گواہ ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے میں دوسرے کا خلیفہ ہونا پسند ہی نہیں کرتا۔‘‘ چنانچہ اس نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔