اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جب ہم نے محنت کر لی تو پھر اللہ سے دعا کی کیا ضرورت ہے۔ جب ہم نے دن رات جاگ کر محنت کی، سبجیکٹ پر عبور حاصل کر لیا، اس کے ہر ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا تو پھر دعا نے کیا کرنا ہے۔ دوسری جانب ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ ہم تو دعاؤں سے کامیاب ہوجائیں گے اور جب ایسا ہونا ہے تو پھر محنت کی کیا ضرورت ہے۔ یہ دراصل دو انتہائیں ہیں۔ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے۔
اللہ نے یہ دنیا جس اصول پر بنائی ہے اس میں کچھ کام انسان کے ذمے ہے تو کچھ کام اللہ نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ اگر ایک کسان بیج بوئے بغیر فصل کی دعا کرے تو وہ بے وقوف ہے کیونکہ اس نے اپنے حصے کا کام ہی نہیں کیا۔ اللہ کا مدد کا اظہار جو اس کی محنت سے مشروط تھا وہ نظر نہیں آئے گا۔ دوسری جانب ایک کسان جب بیج بولیتا ہے تو اب بھی دعا کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے اپنے حصے کا کام تو کرلیا لیکن بے شمار منفی عوامل اس سے کنٹرول سے باہر ہیں۔ مثال کے طور پر بارش ہی نہ ہو تو فصل نہیں ہوگی، کوئی وبا پھیل جائے تو فصل تباہ ہو جائے گی۔ کوئی سیلاب آجائے تو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ اسی طرح وہ طلبا ء جو محنت کئے بغیر دعا پر ہی اکتفا کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ انہوں نے اپنے حصے کا کام پورا نہ کرکے کوتاہی کی ہے اور اس شرط کو پورا ہی نہیں کیا جو دعا کے لئے ضروری تھی۔ چنانچہ ان کی دعا ایسی ہی ہے جیسے گاڑی میں فیول ڈالے بغیر اس کو چلانے کی کوشش کرنا یا کسان کا بیج بوئے بنا فصل کی توقع کرنا۔ دوسری جانب وہ طلباء جو محنت کر چکے ہیں، انہوں نے ابھی کامیابی کی ایک شرط پوری کی ہے۔ اس محنت کے علاوہ بے شمار ناقابل کنٹرول عوامل ان کی محنت کو اکارت کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالبہ نے بہت اچھی تیاری کرلی،
سب کچھ پریکٹس کرلیا لیکن اس کے باوجود کئی عوامل اس کی محنت پر حاوی آکر اسے ناکامی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ عین امتحان کے وقت اس کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے، اس کے ذہن سے بات نکل سکتی ہے، پرچہ خلاف توقع آ سکتا ہے، مارکنگ میں غلطی ہوسکتی ہے، کوئی حادثہ ہوسکتا ہے وغیرہ۔ چنانچہ اللہ سے استدعا کی جاتی ہے کہ اے میرے رب جو میرے بس میں تھا وہ میں نے کرلیا،
اب آپ کا کام ہے کہ مجھے ناقابل کنٹرول عوامل کے اثر سے محفوظ رکھ کر نتیجہ میرے حق میں برآمد کردیجئے۔ اسی لئے جب کامیابی ملتی ہے تو ایک بندہ مومن سارا کریڈٹ اللہ کو دے دیتا ہے اور اس کا شکر گذار ہوتا ہے کیونکہ ہماری محنت کا پھل دینے والا وہی ہے مجرد ہماری محنت نہیں۔ اپنے حصے کا کام کئے بنا دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت پر بھروسہ کرکے دعا سے گریز کرنا تکبر۔