اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) 28 نومبر1997 کو نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی تھی اور نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کورٹ نمبرایک میں اپنے دلائل کے لیے موجود تھے ایک صحافی جو اس دن سپریم کورٹ کے باہر موجود تھے نے سما ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ،میں صبح ساڑھے نو بجے پہنچا تو عبدالستار لالیکا جونواز شریف کے دور میں ایگری کلچر کے وزیر تھے
انہوں نے نعرہ لگایا کہ ’’او آن دیو انہاں نوں‘‘ مظاہرین نے گیٹ توڑ دیا اور سپریم کورٹ کے احاطے میں داخل ہو گئے اسی دوران میں بھی سپریم کورٹ میں داخل ہو گیا، وہاں میری ملاقات خواجہ آصف سے ہوئی تو میں نے کہا کہ اس ہجوم کو روکیں انہوں نے آگے سے کہا کہ کون روکے گا ان کو، ہجوم کے سامنے جو بھی آ رہا تھا وہ اسے تھپڑ اور مکے مارتے ہوئے آ رہے تھے، میں اس ہجوم کے آگے آگے سیڑھیاں چڑھ کر جب اوپر پہنچا تو کورٹ نمبرایک کا دروازہ بند تھا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سیف الرحمان باہر نکلے اور میں نے ان سے بھی کہا کہ لوگ اندر داخل ہو گئے ہیں انہیں روکیں مگر انہوں نے بھی یہ کہا کہ انہیں کون روکے گا، میں جب کورٹ میں داخل ہوا تو بتایا کہ ہجوم سپریم کورٹ میں داخل ہو چکا ہے، براہ مہربانی کچھ کیجئے، اس کے ساتھ ہی نعروں کی آوازیں اندر سنائی دینے لگیں تو اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ ایس ایم ظفر صاحب سے مخاطب ہوئے اور انہیں کہا کہ تھینک یو ویری مچ اور اٹھ کر چلے گئے، سماء نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا سردار نسیم جو میئر راولپنڈی ہیں، انہوں نے مجھے مکا مارا، اس دوران بار ایسوسی ایشن کے صدر اکرم شیخ کو خواجہ آصف نے تھپڑ بھی مارا تھا جو کہ انتہائی نامناسب حرکت تھی۔