یہ ویت نام کی جنگ کے دوران کی بات ہے۔ امریکہ میں نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کا حکم جاری کر دیا گیا تھا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کا ایندھن بننے سے گریزاں تھی۔ بیروزگارسیاہ فام امریکیوں کی بڑی تعداد کو دھڑا دھڑ بغیر معیار جانچے فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا۔سفید فاموں کی بھی نیندیں حرام ہو چکی تھیں کیونکہ حکومت اس حوالے سے نہایت سنجیدہ تھی۔
اسی دوران عالمی شہرت یافتہ باکسنگ کے ایک سیاہ فام امریکی کھلاڑی نے امریکی حکومت کے فیصلے کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خلاف مہم شروع کر دی۔ جنگ کے دوران نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے خلاف ورغلانے اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے جرم میں اس کا باکسنگ لائسنس معطل کر دیا گیا، حکومتی تقریبات میں اس کی آمد پر پابندی لگا دی گئی ۔ نوجوان باکسر باز نہ آیا اس نے میڈیا کا سہارا لیا، وہ کالجوں ، یونیورسٹیوں اور گلی محلوں میں موجود نوجوانوں سے ملنے لگا اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتا رہا، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کے امریکہ کی ویت نام جنگ کے خلاف نظریات اور خیالات سے متفق نظر آئی، امریکی حکومت کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں، ویت نام سے آنیوالی بری خبروں اور نوجوان باکسر کی مہم نے حکومتی ایوانوں پر لرزہ طاری کر رکھا تھا۔ وہ نوجوان صرف خواہ مخواہ کی جنگ میں نوجوانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف ہی نہیں تھا بلکہ امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا روئیے کے خلاف بھی تھا ، وہ اس وقت جب امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے حق میں کوئی طاقتور آواز نہ تھی مسلمانوں کی آواز بنا۔ اس نے ببانگ دہل اسلام کی حقانیت اور اسلام کے
خلاف امریکی حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ یہ اس کی طاقتور آواز تھی جس نے امریکہ میں مسلمانوں کو پہلی مرتبہ سینہ تان کر چلنے کی ہمت عطا کی، ویت نام جنگ ، سیاہ فاموں کے خلاف ناروا رویہ، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اس کی تقریروں اور بات چیت کے موضوعات ہوتے۔ آنے والے حالات نے اس کی باتوں کی تصدیق کی، اس نے کہا کہ یہ جنگ
امریکی نوجوانوں کیلئے قتل گاہ ہے، اس نے کہا کہ سیاہ فاموں کو صرف جنگ کے دنوں میں ہی نہ انسان سمجھا جائے بلکہ انہیں برابری کے حقوق دئیے جائیںاور امتیازی رویہ ختم کیا جائے، اس نے کہا کہ ہاں میں مسلمان ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے اور میرا نام محمد علی ہے۔ جی ہاں !دنیا اس عظیم کھلاڑی کو محمد علی کے نام سے جانتی ہے۔ جس نے دنیا کی تاریخ میں اپنا نام
نہ صرف اپنے کھیل بلکہ اپنے کردار سے بھی بنایا۔ اس کے قریبی دوست اور امریکہ کے معروف یہودی کامیڈین ’’بلی کرسٹل‘‘ اس کی آخری رسومات سے قبل تقریب میں اپنے عظیم دوست کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ویت نام جنگ میں بھرتیوں کے اعلان کے بعد محمد علی امریکی نوجوانوں کی آواز بنے اور حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ
’’بلی کرسٹل ‘‘ کی شہرت کی وجہ محمد علی ہی تھے، اپنے کیرئیر کے ابتدائی دنوں میں تقریبات، ٹی وی شوز میں ’’بلی کرسٹل‘‘محمد علی کی پیروڈی کر کے داد وصول کیا کرتے تھے۔ اسی طرح کی ایک تقریب میں جب وہاں محمد علی بھی موجود تھے ’’بلی کرسٹل‘‘ نے محمد علی کی نقل اتاری، تقریب کے بعد محمد علی نے ’’بلی‘‘ کے ساتھ ایک طاقتور معانقہ کیا اوراپنے مخصوص انداز
میں اس کے کان کے پاس اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’You are my little brother‘‘۔ ’’بلی ‘‘بتاتے ہیں کہ محمد علی نے پھر ساری عمر ان الفاظ کی لاج رکھی اور حقیقت میں بڑے بھائی ہونے کا کردار نبھایا۔ ’’بلی کرسٹل‘‘محمد علی کے ساتھ گزرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے محمد علی سے ملاقات کیلئے جا پہنچا،
محمد علی کی عادت تھی کہ وہ قریب موجود کنٹری کلب کے گالف کورس میں دوڑ لگایا کرتے تھے ۔ محمد علی نے مجھے کہا کہ آئو دوڑ لگانے چلتے ہیں ساتھ میں گپ شپ بھی ہوتی رہے گی۔میں نے محمد علی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا، محمد علی نے مجھ سے ساتھ نہ چلنے کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ کنٹری کلب کی انتظامیہ نے یہودیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے
لہٰذا میں آپ کے ساتھ دوڑ میں شریک نہیں ہو سکوں گا، محمد علی ’’بلی‘‘کی اس بات پر حیران رہ گئے ، وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہودی نواز امریکہ جیسے ملک میں کسی ادارے یا جگہ پر یہودیوں کے داخلے پر پابندی ہو گی۔ محمد علی انسانوں کو برابر ی کا درجہ دینے کے حامی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کیلئے اپنا آپ پیش کیا مگر وہ مذہب کی بنیاد پر
تفریق کے بھی قائل نہ تھے۔ محمد علی نے ’’بلی کرسٹل‘‘سے حیرت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’Little Brotherمیں ایک سیاہ فام امریکی شہری ہوں اور مجھے کنٹری کلب میں داخلے کی اجازت ہے اور تم یہودی ہو اس لئے وہاں داخل نہیں ہو سکتے؟یہ میرے لئے ناقابل قبول ہے، آج کے بعد میں کبھی کنٹری کلب میں داخل نہیں ہونگا‘‘۔ ’’بلی کرسٹل‘‘بتاتے ہیں کہ پھر محمد علی زندگی بھر
کبھی بھی کنٹری کلب کی حدود میں داخل نہ ہوئے۔ محمد علی کو ’’بلی کرسٹل‘‘سے بہت محبت تھی ، وہ اس کی اچھی عادات اور رکھ رکھائو کے گرویدہ تھے اور اس کی بات کبھی نہ ٹالتے کیونکہ اسے چھوٹا بھائی کہہ چکے تھے۔ ویسے بھی یہودی اور عرب حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں جو کہ آپس میں بھائی تھے۔ حضرت اسماعیلؑ بڑے بھائی تھے ،
شاید اسی لئے محمد علی بحیثیت مسلمان’’بلی کرسٹل‘‘کو ’’لٹل برادر‘‘کہہ کر تاریخی حقیقت کا اظہار کرتے ۔ایک بار ’’بلی کرسٹل‘‘نے اسرائیل میں قائم ہونے والی عالمی شہرت یافتہ’’ہیبرو یونیورسٹی ‘‘کی فنڈ ریزنگ تقریب میں محمد علی کو مدعو کر ڈالا۔ تقریب کے شرکا اور خود ’’بلی کرسٹل‘‘کو یقین تھا کہ محمد علی نہیں آئیں گے اور کوئی بہانہ کر دینگے۔
مگر یونیورسٹی کی یہودی انتظامیہ اور دیگر شرکا اس وقت حیران رہ گئے جب محمد علی نہایت خوشگوار موڈ کے ساتھ تقریب میں شریک ہوئے۔ ’’بلی کرسٹل‘‘بتاتے ہیں کہ محمد علی کی شرکت کی وجہ سے کافی زیادہ فنڈ ریز ہو سکا جو کہ ایک ریکارڈ تھا، محمد علی نے میرے کہنے پر ہی فنڈریزنگ تقریب میں شرکت نہیں کی بلکہ وہ جانتے تھے کہ ’’ہیبرویونیورسٹی‘‘
اسرائیل میں قائم وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں عرب، فلسطینی اور یہودی تمام افراد کو داخلے کی سہولت موجود ہے، جو مذاہب سے بالاتر ہو کر صرف علم کی ترویج کر رہی ہے۔ تقریب کے دوران جب میں نے محمد علی کا شکریہ ادا کیا تو محمد علی نے مجھے ایک طاقتور معانقہ کے بعد اپنے مخصوص انداز میں کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ’’You are my little brother۔‘‘عظیم محمد علی کلے باکسر
کی عظمت کا اعتراف یہودیوں نے بھی کیا۔ یہ ان کا اعلیٰ کردار تھا جس نے دنیا میں بسنے والے دیگر مذاہب کے افراد کے ذہنوں میں موجود اسلام سے متعلق غلط فہمیوںکے ازالے میں اہم کردار ادا کیا۔