افریقی نژاد امریکی مسلمان باکسر محمد علی کلے کے نام سے ہر کوئی واقف ہے، آپ نہ صرف امریکہ بلکہ عالم اسلام میں بھی نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھےاس بات کا ثبوت اس واقع سے بھی ملتا ہے جب 23نومبر 1990کو امریکی حکومت کے منع کرنے کے باوجود محمد علی 15امریکی یرغمالیوں کو عراقی صدر صدام حسین کی قید سے چھڑوانے کیلئے بغداد پہنچے۔
امریکہ صدام حسین کو سبق سکھانے کا ارادہ کر چکا تھا، جنگ کی تیاریاں ہو چکی تھیں، صدام حسین نے 15امریکی یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کے نزدیک یہ سی آئی اے کے ایجنٹ تھے جو کہ عراق کے خلاف کام کر رہے تھے۔ محمد علی ایک امریکی امن تنظیم کے وفد کے ہمراہ بغداد پہنچ گئے اس امریکی امن تنظیم کے سرپرست سابق امریکی اٹارنی جنرل لیمزی کلارک تھے جن کا خیال تھا کہ تنظیم کی جانب سے امریکی یرغمالیوں کو چھڑانے کیلئے بغداد جانے والے وفد میں محمد علی کوان کی بین الاقوامی شہرت اور عالم اسلام میں ان کی عزت و تکریم کے باعث ضرور شامل ہونا چاہئے۔ محمد علی کے دورہ عراق کے دوران ان کو اسسٹ کرنے والے ایک سیاہ فام امریکی سفارتکار ویرون نوریڈ بتاتے ہیں کہ عراقی عوام میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن محمد علی بغداد پہنچ چکے ہیں اور اس حوالے سے عوام میں بہت جوش و خروش بھی پایا جاتا ہے۔ محمد علی اس وقت نیورو ڈس آرڈر کا شکار تھے ، اس بیماری نے 6سال قبل انہیں جکڑا تھا، ان کے ہاتھ ، زبان اور دیگر عضو صحیح طرح سے کام نہیں کر رہے تھے مگر انہوں نے دورہ عراق کے دوران اس کا احساس نہ ہونے دیا اور ایک مصروف شیڈول کے تحت یرغمالیوں کی رہائی کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا۔
وہ صدام حسین کی جانب سے ملاقات کی اجازت کیلئے انتظار کرنے لگے۔اس دوران وہ بغداد کے عوام سے بھی ملاقاتیں کرتے ، وہ گلی کوچوں میں نوجوانوں کے درمیان پہنچ جاتے، بغداد کے سکولوں میں ان کی آمد نے بچوں میں بھی جوش و جـذبہ بڑھا دیا تھا، وہ عراقی بچوں کو جھک کر سلام کرتے اور ان کو بوسہ دیتے۔اس موقع پر محمد علی نے بغداد کی تاریخی مسجد میں نماز بھی ادا کی۔
محمد علی کی مقناطیسی شخصیت نے بغداد کے گلی کوچوں ، قہوہ خانوں ، گھروں میں صرف ایک ہی موضوع کو جنم دے دیا تھا اور وہ خود محمد علی تھے۔عراقی عوام ان سے آٹو گراف لیتےاور بات چیت کرنے کی کوشش کرتے، محمد علی علالت کے باوجود عراقی عوام کی محبت کا خوشدلی سے جواب دیتے ، محمد علی کی شخصیت ہی تھی جس نے عراقی حکام کو کسی بھی
ملاقات کی درخواست سے انکار کرنے سے روکے رکھا،اس موقع پر محمد علی کا کہنا تھا کہ ’’ہم دعا کر سکتے ہیں کہ جنگ نہ ہو،نچلی سطح پر عراقی حکام سے ملاقاتوں نے عراق کی اصل اور خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے لانے میں مدد دی۔عراق پہنچنے کے ایک ہفتے بعد تک صدام حسین کی جانب سے ملاقات کیلئے وقت نہ دیا گیا ، محمد علی کی حالت خراب ہو رہی تھی
مگر وہ عراق میں ہی موجود رہے اور ادویات جو ڈاکٹروں نے انہیں تجویز کی تھیں استعمال کرتے رہے۔پھر وہ وقت آن پہنچا، اچانک اگلے دن محمد علی کو بتایا گیا کہ صدام حسین آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔وائٹ ہائوس محمد علی کی صدام سے ملاقات کو مسترد کر چکا تھا ، وائٹ ہائوس کے مطابق یہ ایک ڈکٹیٹر کو دنیا کے سامنے قابل قبول بنانے کا جواز فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔
محمد علی صدارتی محل میں صدام حسین کے سامنے پہنچ چکے تھے، روایتی معانقے کے بعد گفت و شنید کا دور چلا، صدام حسین نے محمد علی پر واضح کیا کہ یہ افراد عراق کو انتہائی مطلوب افراد میں شامل ہیں،محمد علی نے صدام حسین کو یقین دلایا کہ وہ یرغمالی امریکیوں کو واپس امریکہ لے کر جائیں گے اور دنیا کو اصل صورتحال سے تمام تر سچائی کے ساتھ آگاہ کرینگے۔
تمام باتیں سننے کے بعد صدام حسین کے چہرے میں نہایت پراسرار مسکراہٹ در آئی اور وہ محمد علی سے کچھ یوں مخاطب ہوئے۔’’میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ حاجی محمد علی امریکہ امریکی یرغمالیوں کے بغیر خالی ہاتھ لوٹیں‘‘۔ صدام حسین کی جانب سے امریکی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی محمد علی اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ جس قدر جلدی ہو
یرغمالیوں سمیت عراق سے جلد از جلد امریکہ کی جانب پرواز بھری جائے۔یرغمالیوں سے ملاقات کے دوران نہایت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے، یرغمالی محمد علی کے شکرگزار تھے،یرغمالیوں میں شامل بوبی اینڈرسن کا کہنا تھا کہ میں اور میرا خاندان ہمیشہ محمد علی کا شکر گزار رہیں گے وہ ایک عظیم انسان ہیں۔‘‘جارج چرچل محمد علی سے جب شکریہ ادا کر رہا تھا
توان سے کچھ یوں گویا ہوا’’چیمپ میں تمہیں کیسے کہوں کہ شاید دنیا میں وہ الفاظ ہی نہیں جس سے میں تمہارا شکریہ ادا کر سکوں۔‘‘محمد علی نے جارج کو ٹوکتے ہوئے فوراََ کہا ،اللہ کا شکر ادا کرو میرا نہیں، اللہ اپنے بندوں کو وسیلہ بناتا ہے ، یہ میرا کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔2دسمبر 1990کو محمد علی تمام یرغمالیوں کے ہمراہ عراقی دارالحکومت بغداد کے ائیرپورٹ پر جہاز میں
امریکہ جانے کیلئے سوا ہو چکے تھے۔چار مہینے عراقی قید میں گزارنے والے امریکی یرغمالیوں کے چہرے کھل رہے تھے، وہ بہت خوش تھے۔عراق کے کویت پر حملے کے دوران گرفتار ہونے والے ’’ہیری برل ایڈورڈز‘‘کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ’’میں بہت خوش قسمت ہوںکہ میں بچ کر واپس امریکہ جا رہا ہوں ،اور اس میں محمد علی کا کلیدی کردار ہے۔3
دسمبر 1990نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر محمد علی کا جہاز لینڈ کر گیا۔ میڈیا اور یرغمالیوں کے اہل خانہ محمد علی اور یرغمالیوں کے استقبال کیلئے وہاں موجود تھے۔6ہفتوں بعد امریکہ نے آپریشن ڈیزرٹ سٹارم کا آغاز کرتے ہوئے کروز میزائلوں سے عراق پر حملہ کر دیا۔