امیر حمص حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے حالات معلوم کرنے اور شہر حمص کے پریشان حال لوگوں کے آنسو پونچھنے کے لئے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک بار پھر حمص کا دورہ کیا۔ جب وہاں کے لوگ حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ اے اہل حمص! تم نے اپنے عامل (افسر) کو کیسا پایا؟
اہل حمص نے فاروق اعظم کی خدمت میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کیخلاف کچھ شکایتیں پیش کیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں ان سے چار شکایتیں ہیں۔ (1) جب تک کافی دن نہیں نکل آتا سعید رضی اللہ عنہ گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ (2) رات کو کوئی آواز دیتا ہے تو وہ جواب نہیں دیتے۔ (3) مہینے میں ایک دن گھر کے اندر رہتے ہیں اور بالکل باہر نہیں نکلتے۔ (4) وقتاً فوقتاً انہیں جنون کے دورے پڑتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ اور سب لوگوں کو جمع کیا اور (دل میں)کہا! اے اللہ! آج کے بارے میں میری رائے کی لاج رکھنا۔ پھر فرمایا، لوگو بتاؤ، تمہیں ان سے کیا شکایت ہے؟ لوگوں نے کہا جب تک کافی دن نہیں نکل آتا، سعید رضی اللہ عنہ گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے سعید رضی اللہ عنہ! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟سعید رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر عرض کیا، خدا کی قسم! میں ان چیزوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا تھا، میں نے ان باتوں کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان راز رکھا تھا۔ آپ پوچھتے ہیں تو بتائے دیتا ہوں۔ علی الصبح میں اس لئے باہر نہیں نکلتا کہ میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے۔ میں گھر کا کام انجام دیتاہوں، میں آٹا گوندھتا ہوں، پھر خمیر اٹھنے کے انتظار کرتا ہوں۔ اس کے بعد روٹی پکاتا ہوں، پھر وضو کر کے ان لوگوں کی خدمت کیلئے باہر نکلتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، تمہیں ان سے اور کیا شکایت ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ رات کو جواب نہیں دیتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دن کا وقت لوگوں کی خدمت کیلئے اور رات کا وقت اللہ کی عبادت کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا اور تمہیں ان سے کیا شکایت ہے؟ لوگوں نے کہا کہ مہینے میں ایک دن گھر سے نہیں نکلتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سعید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس کا کیا جوب دیتے ہو؟ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس کپڑوں کا ایک جوڑا ہے۔
مہینہ میں ایک بار اس کو دھوتا ہوں جب وہ سوکھ جاتے ہیں تو اسے پہن کر باہر نکلتا ہوں۔ اس وقت دن کا بڑا حصہ گزر جاتا ہے اس لئے لوگوں سے نہیں مل سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا، تمہیں اور ان سے کیا شکایت ہے؟انہوں نے کہا کہ ان کو وقتاً فوقتاً دورے پڑتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم اس کے متعلق کیا کہتے ہو؟
حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خبیب بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کو مکہ میں مصلوب کیا گیا تو میں بھی حاضرین میں موجود تھا اور میں اس وقت مشرک تھا۔ میں نے مشرکین قریش کو دیکھا کہ انہوں نے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ پھر ان کو کھجور کے ایک تنا پر لٹکا دیا اور کہنے لگے کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ پر محمدﷺ ہوتے؟
حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! میں اپنے اہل و عیال میں رہنا پسند نہیں کرتا تھا، مجھے خبیب رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا احساس بعض اوقات بے چین کر دیتا ہے اور میں بیہوش ہو جاتا ہوں۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ کے جوابات سن کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور فرمایا کہ خدا کا شکرہ ہے کہ اس نے سعید رضی اللہ عنہ کے بارے میں میرے گمان کوغلط ثابت نہیں کیا۔