حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد کے فرش پر لیٹے ہوئے تھے، سر کے نیچے اپنی چادر رکھی ہوئی تھی کہ یکایک کوئی شخص چیخ چیخ کر کہنے لگا۔ ہائے عمر رضی اللہ عنہ! ہائے عمر رضی اللہ عنہ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھبرا کر اٹھے اور جلدی سے دیکھا کہ کون انہیں آواز دے رہاہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اونٹ کی لگام پکڑے کھڑا ہے اور اس کے ارد گرد لوگ بھی کھڑے ہیں۔
لوگوں نے اس کو بتایا کہ یہ امیرالمومنین ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یہ شخص کون ہے؟ کوئی مظلوم لگتا ہے۔ اس آدمی نے چند اشعار کہے جس میں اس نے خشک سالی کا شکوہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا پھر پکار کر کہا! ہائے عمر! ہائے عمر! تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کیا کہتا ہے؟ یہ اصل میں قحط سالی کا ذکر کر رہا ہے۔ عمر تو پیٹ بھر کر کھا رہا ہے اور سیر ہو کر پانی پی رہا ہے لیکن مسلمان قحط سالی اور تنگ حالی میں مبتلا ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سے اونٹ غلے سے لاد کر اس کو دیئے اور دو انصاری آدمی بھی اس کے ہمراہ بھیجے۔ وہ انصاری یمن میں داخل ہوئے اور ان کے پاس جو کچھ تھا لوگں میں تقسیم کر دیا، صرف تھوڑی سی چیز باقی بچی جو مٹھی بھر بھی نہ ہو گی۔ جب وہ دونوں انصاری عازم مدینہ ہوئے تو راستہ میں ایک آدمی ملا، بھوک کے مارے اس کی ٹانگیں لاغر ہو چکی تھیں۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ جب اس نے ان کو دیکھا تو نماز توڑی اور جلدی سے ان کے پاس گیا اور کہنے لگا تمہارے پاس کچھ ہے؟ ان انصاریوں نے جو کچھ بچا ہوا تھا اس کو دے دیا اور اس کو کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنقریب غلہ بھیج دیں گے۔ اس نے تنگ آ کر کہا خدا کی قسم! اگر ہم نے عمر رضی اللہ عنہ پر بھروسہ کیا تو ہلاک ہو جائیں گے۔
پھر اس نے سب کچھ ایک طرف کو پھینکا اور دوبارہ نماز میں مشغول ہو گیا۔ پھر اس نے دست سوال دراز کیا اور خوب عاجزی کے ساتھ دعا کرنے لگا، ابھی اس نے اپنے ہاتھوں کو منہ پر پھیرا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسا دی۔