صبح ہوئی، سورج نے اپنی سنہری کرنیں مدینہ منورہ پر چھوڑنا شروع کیں، لوگ حضورؐ کی صحت معلوم کرنے کے لیے جمع تھے، آنحضرتؐ بستر مرض پر پڑے تھے۔ جب حضرت علیؓ حجرۂ اقدسؐ سے نکل کر باہر آئے تو جو لوگ گھر کے سامنے کثیر ازدحام کی شکل میں کھڑے تھے،
حضرت علیؓ سے پوچھنے لگے: اے ابوالحسنؓ! رسول اللہؐ نے صبح کس حال میں فرمائی؟ آنحضورؐ کی صحت کیسی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے، حضورؐ کی صحت ٹھیک ہے۔ حضرت عباسؓ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ایک طرف لے گئے، پھران کے کان میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہؐ کی اس مرض میں وفات ہوجائے گی اس لیے آپؓ جائیں اور آنحضورؐ سے دریافت فرمائیں کہ آپؐ کے بعد اس امر خلافت کا حق دار کون ہوگا؟ اگر اس امر خلافت کے مستحق ہم لوگ ہوئے تو ہمیں اس کا علم ہو جائے گا اور اگر دوسرے لوگ اس کے اہل ہوئے توآنحضرتؐ اس کے لیے حکم فرما دیں گے اور ہمیں اس کی وصیت کر جائیں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! اگر ہم نے اس کے متعلق رسول اللہؐ سے دریافت کیا تو ہمیں آپؐ اس سے روک دیں گے پھر لوگ ہمیں کبھی بھی نہیں دیں گے، خدا کی قسم! میں اس خلافت کے بارے حضور اکرمؐ سے کبھی نہیں پوچھوں گا۔