سعید بن ابی عروبہ کہتے ہیں ایک مرتبہ حجاج بن یوسف حج کے سفر پر نکلا ہوا تھا کہ راستے میں پانی کے ایک چشمے پر قیام کیا اور دربان سے کہا ’’جاؤ کسی شخص کو تلاش کر کے لاؤ جو ہمارے ساتھ کھانا کھائے اور ہم اس میں سے کچھ گفتگو بھی کر سکیں‘‘۔
دربان نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اسے ایک اعرابی سویا ہوا نظر آیا، آ کر پاؤں کی ٹھوکر سے اسے جگایا اور حجاج کے پاس لے آیا، حجاج نے اس سے کہا ’’ہاتھ دھو کر آؤ اور میرے ساتھ کھانا کھاؤ‘‘ اعرابی نے کہا ’’آج تم سے بہتر ہستی نے مجھے دعوت دے رکھی ہے اور میں اسے قبول کر چکا ہوں‘‘۔ حجاج نے حیران ہو کر کہا ’’کس نے تمہیں دعوت دے رکھی ہے؟‘‘ اعرابی نے کہا، اللہ تعالیٰ نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی ہے اور میں روزہ رکھ چکا ہوں۔ حجاج نے کہا ’’اس قدر گرمی میں؟‘‘ اعرابی نے کہا ’’اس سے بھی زیادہ گرمی میں رکھتا رہا ہوں‘‘ حجاج نے کہا ’’کل رکھ لینا‘‘ اعرابی نے کہا ’’اگر آپ کل تک زندہ رہنے کی ضمانت دیتے ہیں تو ٹھیک ہے‘‘ حجاج نے کہا ’’یہ تو میرے اختیار میں نہیں‘‘ اعرابی نے کہا ’’تو پھر آپ مجھ سے نقد کے بدلے ایسے ادھار کا مطالبہ کیسے کرتے ہیں جو آپ کے اختیار میں ہی نہیں‘‘۔ حجاج نے کہا ’’یہ کھانا بہت عمدہ ہے‘‘۔ دیہاتی نے کہا ’’ارے عافیت ہے تو کھانا عمدہ محسوس ہو رہا ہے، اس کی عمدگی عافیت ہی کی بدولت ہے‘‘۔