قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے، ان کا اسم گرامی بی ایچ او ہلرٹ تھا۔ ایک روز راولپنڈی میں ایک استقبالیہ سے فارغ ہو کر ہم اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے، مسٹر اوہلرٹ کی گاڑی پہلے آ گئی، انہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لئے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا۔
جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے رہے، وہ پاکستانی سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پبھتیاں کستے رہے، موٹروں، بسوں، رکشاؤں اور سکوٹروں کے ہجوم میں بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے BIPEDS (دوپایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے، فیض آباد چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سیٹ پر جھک گئے، مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں کوئی مچھر یا مکھی گھس گئی ہے اور بیچارے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔ میں نے اذراہ ہمدردی ان سے دریافت کیا ’’آپ خیریت سے تو ہیں‘‘ مسٹر اوہلرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور پھیکے لہجے میں بولے ’’میں بالکل خیریت سے نہیں، کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوں؟ وہ دیکھو! انہوں نے اس طرف اشارہ کر کے کہا، وہ دیکھو آنکھوں کا خار، میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے‘‘۔ میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا سا اشتہاری بورڈ آویزاں تھا۔ جس پر پی آئی اے کا رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ اس اشتہار میں درج تھا’’پی آئی اے سے پرواز کیجئے اور چین دیکھئے‘‘۔دیکھا آپ نے امریکی سفیر کی وطن پرستی کو کہ چین کی طرف پی آئی اے کی پرواز کا اشتہار اس کی نظروں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا تھا اس سے پاک چین دوستی بڑھے گی اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔