حافظ ابن حجرؒ نے ’’الاصابہ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کے مناقب میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں رومیوں سے جنگ کے دوران آپ چند مسلمانوں کے ساتھ گرفتار ہوئے، شاہ روم نے ان سے کہا کہ آپ نصرانی بن جائیں تو میں آپ کو اپنی حکومت میں شریک کر لوں گا،
لیکن حضرت عبداللہ بن حذافہؓ نے نصرانیت قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے شاہ روم نے انہیں تختہ دار پر باندھ کر حکم دیا کہ ان پر تیر برسائے جائیں لیکن جب دیکھا کہ آپ کے چہرے پر کسی قسم کے خوف کے آثار نہیں ہیں تو وہاں سے انہیں اتارا اور حکم دیا کہ دیگ میں پانی گرم کر کے کھولتے ہوئے پانی میں انہیں ڈال دیاجائے، اس میں ڈالنے کیلئے جب انہیں دیگ کے قریب لے جایا گیا تو رونے لگے، شاہ روم نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے، رو اس لئے رہا ہوں کہ میری تمنا ہے کہ میرے لئے سو جانیں ہوں اور ہر جان قربانی کا اس طرح نذرانہ پیش کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو‘‘ شاہ روم کو بڑی حیرت ہوئی، کہنے لگا ’’تم میرے سر کو بوسہ دے دو، میں تمہیں چھوڑ دوں گا‘‘ فرمانے لگے، صرف مجھے نہیں میرے ساتھیوں کو بھی‘‘ شاہ روم نے کہا، ٹھیک ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن حذافہؓ نے اس کے سر کو بوسہ دیا اور شاہ روم نے حسب وعدہ تمام مسلمان قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ حضرت فاروق اعظمؓ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آ کر حضرت عبداللہ بن حذافہؓ کے سر کو بوسہ دیا۔