اہل شام کا ایک آدمی تھا، اس کی جنگ کے میدان میں آواز شیر کی طرح تھی، لشکر میں اس کی آواز ہزار شہ سواروں سے زیادہ بہتر تھی۔ جب وہ پکارتا تو سارا مجمع اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتا، وہ ایک دن مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ملنے آیا لیکن ملاقات نہ ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ فلاں بن فلاں نے کیا کیا؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ شراب پیتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب (سیکرٹری) کو اور اس سے فرمایا کہ ’’فلاں بن فلاں کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے لکھو کہ میں تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا اور قدرت والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کے پاس سب کو جانا ہے‘‘۔ (سورۃ المومن کی آیت 3 کاترجمہ ہے)۔ پھرآپ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے بھی فرمایا کہ اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ وہ اپنے دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے۔ جب وہ خط اس آدمی کو پہنچا تو اس نے پڑھا تو بار بار یہ الفاظ دہرانے لگا ’’وہ گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ پھر کافی دیر تک روتا رہا حتیٰ کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی بھیگ گئی اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کی برکت سے اس کو شراب نوشی کرتے نہیں دیکھا گیا۔