جمعہ کا دن تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو اپنی بلند آواز کے ساتھ وعظ و نصیحت کر رہے تھے، اچانک پکار کر کہنے لگے، اے ساریہ بن زنیم! پہاڑ پر ڈٹے رہو۔ اے ساریہ بن زنیم! پہاڑ پر ڈٹے رہو۔ جس نے بھیڑیے کو بکریوں کا نگران بنایا اس نے ظلم کیا۔
یہ بات آپ رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ فرمائی۔ لوگ حیران و سرگردان ہوئے اور بزبانِ حال کہنے لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیا ہوا؟ اور ساریہ بن زنیم یہاں کہاں؟ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر سے نیچے اترے، لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور اس کا سبب پوچھنے لگے! آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ ہمارے بھائی ان مشرکین سے جنگ ہار رہے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائی اس وقت ایک پہاڑ سے گزر رہے ہیں اگر وہ اس پہاڑ کی پناہ میں آ جائیں اور اس پر ڈٹ جائیں تو ایک ہی جانب سے ان کے ساتھ قتال کریں گے لیکن اگر وہ اس پہاڑ سے آگے نکل گئے تو مارے جائیں گے، اس لئے تم نے اس وقت دیکھا کہ میں نے ان کو پہاڑ پر جمے رہنے کا حکم دیا۔ ایک مہینہ گزرا تو یہ خوشخبری آ گئی کہ مشرکین شکست فاش سے دوچار ہو گئے۔ آنے والوں نے بتایا کہ ہم نے دوران جنگ یہ آواز تین مرتبہ سنی کہ اے ساریہ! پہاڑ پر جمے رہو۔ تو ہم نے اسی وقت پہاڑ کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست سے دوچار کیا۔