ابھی جیش اسامہ رضی اللہ عنہ نے مقام خندق کو بھی پار نہیں کیا تھا کہ یہ خبر قیامت اثر کانوں میں پہنچی کہ رسول کریمﷺ کا انتقال ہوگیا۔ لشکر رک گیا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ رسول اللہﷺ کے خلیفہ کے پاس جائیں اور ان سے اجازت طلب کریں کہ لوگ واپس لوٹ آئیں کیونکہ مجھے خلیفہ رسول کے تعلق اطمینان بھی نہیں ہے اور کہیں مشرکین، مسلمانوں کے قیمتی سامان کو اٹھا نہ لے جائیں۔
انصار کہنے لگے، اگر وہ نہ مانیں تو ہم اس مہم میں چلتے رہیں گے، آپ ان کو (خلیفہ رسولﷺ)کو ہماری طرف سے پیغام پہنچا دیں اور ان سے یہ مطالبہ کریں کہ ہمارے اس امر کا ایسے آدمی کو ذمہ دار بنائیں جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر رسیدہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، اسامہ رضی اللہ عنہ کا حکم لے کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی ساری بات بتائی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر یہاں کے کتے اور بھیڑیے مجھے اٹھا لے جائیں تب بھی میں رسول اللہﷺ کا کیا ہوا فیصلہ واپس نہیں لوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انصار نے بھی مجھے آپ تک یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیا ہے، وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر والا شخص ان کا والی بنایا جائے۔ (یہ سنتے ہی) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شیر کی طرح جھپٹے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑی اور پکار کر فرمایا اے ابن خطاب! تیری ماں تجھے روئے، کیا تم مجھے ایسے شخص کو معزول کرنے کا کہتے ہو جس کو خود رسول اللہﷺ نے ان کا والی بنایا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خجالت کے آثار لئے واپس مڑے اور انصار کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ کیا ہوا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے کام میں لگے رہو، تمہاری مائیں تم پر روئیں۔ آج مجھے تمہاری وجہ سے خلیفہ رسول سے ڈانٹ پینی پڑی ہے۔