جب آسمان سے بادل برسنے بند ہو گئے۔ زمین نے اپنا پانی نگل لیا، سارے جزیرہ عرب کو قحط سالی نے آ گھیرا، مدینہ میں ہر سمت فاقہ کشی کا عالم ہو گیا، شیرخوار بچے بھوک کے مارے تڑپنے لگے، اور بوڑھوں کے کلیجے پٹھنے لگے۔
تو امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ ’’اللہ کے بندے عمرؓ، امیرالمومنین کی طرف سے عمرو بن العاصؓ کے نام، سلام کے بعد اے عمرو! خدا کی قسم! تمہیں کوئی پرواہ نہیں، کیوں کہ تم اور تمہارے یہاں کے لوگ شکم سیر ہیں جبکہ میں اور میرے یہاں کے لوگ مرتے جا رہے ہیں ،امداد کرو، امداد کرو‘‘۔ امیر المومنین کا یہ خط پڑھ کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بڑا قلق ہوا اور انتہائی افسوس ہوا، پھر اس وقت تک خود عمدہ کھانا پینا چھوڑ دیا جب تک کہ جزیرہ عرب کے مسلمانوں کے لئے کھانے پینے کا سامان تیار نہیں ہو گیا۔ پھر امیرالمومنین کو خط لکھا ’’اللہ کے بندے عمرؓ، امیر المومنین کے نام، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف سے۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد! میں جناب حاضر ہوں، حاضر ہوں، میں نے آپ کی طرف اتنے اونٹ بھیج دیئے ہیں جن کا اول حصہ آپ کے پاس اور آخری حصہ میرے پاس ہے والسلام علیک و رحمتہ اللہ وبرکاتہ