ایک آدمی نے چلا کر کہا ’’اے امیرالمومنین! میرے ساتھ چلیں، فلاں شخص نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، میری مدد کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا دُرّہ اٹھایا اور اس کے سر پر مارا اور فرمایا ’’تم لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو پکارتے ہو وہ تمہارے لئے نمائش گاہ ہے جب وہ (عمر رضی اللہ عنہ) مسلمان کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہے تو تم آ جاتے ہو کہ میرے ساتھ چلو، میرے ساتھ چلو۔
وہ آدمی غصہ سے بھرا ہوا واپس چلا گیا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ فرو ہوا تو) فرمایا کہ اس آدمی کو بلاؤ۔ وہ آیا تو اس کو اپنا دُرّہ دیا اور فرمایا کہ مجھ سے بدلہ لے لو۔ اس آدمی نے کہا کہ نہیں، میں اس معاملہ کو اللہ کے لئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہو گا بلکہ یا تو تم اللہ کے لئے چھوڑ دو اور اس کے پاس اجر وثواب کی امید رکھو یا یہ معاملہ میرے لئے چھوڑ دو، میں اس کو جان لیتا ہوں۔ اس آدمی نے کہا کہ میں اس معاملہ کو اللہ کے لئے چھوڑتا ہوں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلے جاؤ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ چلتے ہوئے اپنے گھر تشریف لائے اور ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے نماز شروع فرمائی، دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے اور کہنے لگے۔ اے ابن خطاب! تو کم حیثیت کا مالک تھا اللہ تعالیٰ نے تجھے رفعتیں دیں، تو بے راہ تھا اللہ نے تجھ راہ دکھائی، تو ذلیل تھا اللہ نے تجھے عزت دی، پھر اللہ نے تجھے مسلمانوں کی گردنوں پر سوار کیا، ایک آدمی آیا اس نے تجھ سے مدد چاہی مگر تو نے اس کو مارا، تو اپنے رب کو کیا جواب دے گا؟ احنف کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی ذات کو ملامت کرنے لگے، میں جان گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ تمام روئے زمین کے باسیوں سے افضل ہیں۔