ایک مرتبہ نبی کریمؐ کے دور میں ایک عورت کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھی۔ کسی کو اس کا پتہ بھی نہیں تھا۔ یہ معاملہ اس کے اور اس کے پروردگار کے درمیان تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ احساس ڈالا کہ دنیا کی تکلیف تھوڑی ہے اور آخرت کی زیادہ ہے اور دنیا کی ذلت تھوڑی ہے اور آخرت کی زیادہ ہے۔ لہٰذا مجھے چاہیے کہ میں اپنے اس گناہ کو دنیا میں ہی پاک صاف کروا جاؤں۔
چنانچہ وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کیا، اے اللہ کے نبیؐ! مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے، آپؐ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس نے دوسری طرف سے آ کر کہا، اے اللہ کے نبیؐ! مجھ سے گناہ سرزد ہوا ہے۔ آپؐ نے پھر اپنا رخ پھیر لیا۔ اللہ کے محبوبؐ نے چار مختلف اطراف میں رخ کیا اور اس نے چاروں طرف سے آ کر بتایا کہ مجھ سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا ہے۔۔۔ چار مرتبہ کیوں رخ پھیرا؟۔۔۔ اس لیے کہ نبی کریمؐ اس سے چار مرتبہ گواہی لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ اس وقت تک حد جاری نہیں ہو سکتی جب تک گواہی نہ ہو۔اس عورت نے اقرار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے گناہ کیا ہے اور وہ گناہ میرے پیٹ میں پل رہا ہے۔ اب میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھ پر حد جاری کرکے مجھے اس گناہ سے پاک فرما دیں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، ابھی جاؤ اور جب وضع حمل ہو جائے تو پھر آنا، چنانچہ وہ چلی گئی۔جب بچے کی پیدائش ہو گئی تو وہ بچے کو لے کر پھر آئی اور پھر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے نبیؐ! اب آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ اللہ کے محبوبؐ نے ارشاد فرمایا کہ ابھی اس بچے کو دودھ پلاؤ، چنانچہ وہ پھر واپس چلی گئی۔دو سال دودھ پلانے کے بعد پھر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی، اے اللہ کے محبوبؐ! آپ مجھ پر حد جاری کر دیجئے۔ اب کی بار جب وہ آئی تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا جسے وہ کھا رہا تھا۔۔۔
وہ بتانا چاہتی تھی کہ اب یہ میرے دودھ کا محتاج نہیں رہا۔۔۔ اس اس پر حد جاری کی گئی۔ غور کیجئے کہ اس نے وضع حمل سے پہلے اپنے گناہ کا اقرار کیا، پھر دو سال دودھ پلانے کے بھی گزرے۔ مگر اس میں ایسی استقامت تھی کہ وہ بار بار آتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ میں دنیا میں ہی اس بوجھ سے پاک ہو جاؤں۔ چنانچہ اس کو سنگسار کر دیا گیا۔۔۔ سنگسار کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے اس کے بارے میں کوئی سخت بات کہہ دی مگر نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:’’عمرؓ! اس نے ایسی سچی توبہ کی ہے کہ اس کی توبہ کے اجر و ثواب کو شہر والوں پر تقسیم کر دیا جائے تو شہر کے سب گناہ گاروں کی مغفرت ہو جائے۔‘‘