امین گیلانی اپنی ایک کتاب ’’غلط فہمی‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ایک روز میرا ایک سیانا بیانا دوست آیا اور ہنس کر کہنے لگا، یار آج میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ ہوا، میں فجر کی نماز کے لئے جب مسجد میں داخل ہواتو جماعت کھڑی ہو گئی، میں نے جلدی جلدی وضو کیا کہ ابھی دو سنتیں بھی پڑھنی ہیں،
کہیں جماعت سے رہ نہ جاؤں، وضو کر کے اٹھا، ٹوپی اٹھانے لگا تو ساتھ ہی ایک چمکتی ہوئی گھڑی نظر آئی، میں نے وہ بھی اٹھا کر جیب میں ڈال کہ یقیناً کوئی نمازی یہاں بھول گیا ہے، شیطان نے ورغلایا، بجائے نماز ادا کرنے کے جوتا پہنا اور مسجد سے باہر آ گیا ، دور جا کر جیب میں ہاتھ ڈال کر گھڑی نکالی کہ دیکھوں قیمتی ہے یا معمولی، جب گھڑی دیکھی تو مارے حیرت کے وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا کہ وہ گھڑی میری اپنی تھی، جو غلط فہمی میں کسی دوسرے کی سمجھ کر لے بھاگا اور نماز بھی نہ ادا کی، اپنے آپ کو لعنت ملامت کی، دل ندامت میں ڈوب گیا، توبہ کی اور واپس آ کر تنہا نماز ادا کی اور اللہ سے معافی چاہی، اصل بات یہ ہوئی کہ جماعت میں شامل ہونے کا احساس اتنا شدید تھا کہ یہ بھی ذہن سے محو ہو گیا کہ میں نے ٹوپی کے ساتھ گھڑی بھی اتار کر رکھی تھی‘‘ دیکھ لیا غلط فہمی میں انسان کیا کیا حرکتیں کر گزرتا ہے‘‘۔