“یہ کیا ہے؟” رئیس عثمانی صاحب نے ایک برتن کی دکان کے اندر رکھے ہوئے روٹی بنانے کے کالے توے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ میں ان کے اس غیر متوقع سوال پر تھوڑا سا بوکھلا گیا۔ “جی ۔ یہ؟ ” پھر تھوڑا سنبھلتے ہوئے میں نے کہا۔ “حضرت! یہ روٹیاں پکانے کا توا ہے۔۔” مسکرائے ۔ کہنے لگے۔ “آپ نے زندگی میں کبھی خریدا ہے؟” “میں نے؟” میں سوچ میں پڑ گیا۔”
ہاں۔ غالبا” ایک بار۔۔ جب میں اپنے والدین سے الگ ہوا تھا۔ اور اپنا گھر نئے سرے سے بسایا تھا” عثمانی صاحب کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے۔”صرف ایک بار ؟ اب تک کی پوری زندگی میں؟” میں نے کہا۔۔”جی بالکل۔۔ ایک ہی بار۔” عثمانی صاحب کہنے لگے۔”اور آپ سے پہلے غالبا” آپ کے والدین نے بھی زندگی میں ایک یا دو بار ہی یہ چیز خریدی ہوگی؟” میں نے کہا۔ “یقینا” ۔۔۔یہ ایسی چیز تو ہے نہیں جو روز خریدی جائے” عثمانی صاحب کے ہونٹوں پر پھر تبسم پھیل گیا۔۔ کہنے لگے۔ “یہی بات میں آپ کو سمجھانا چاہ رہا تھا کہ ایک ایسی چیز کہ جس کے خریدنے کی ضرورت ایک خاندان کو بمشکل زندگی میں ایک یا دو بار پڑتی ہے۔۔ (آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) صدقے جائیے اس رزاق کے ۔۔یہ جو دکاندار ہے نا برتن والا۔۔ یہ روز کے پندرہ بیس توے بیچتا ہے۔۔ کتنے؟” میں نے دہرایا۔”پندرہ بیس” کہنے لگے۔” جی بالکل۔۔ پندرہ بیس۔۔ وہ کون لوگ ہیں جو اس سے خرید کے جاتے ہیں۔ آپ کہیںگے کہ شہر بڑا ہے ۔۔ضرورت نکلتی رہتی ہے۔۔۔ مگر سوچئیے کہ وہ کون ہے جو ضرورتیں پیدا کرتا ہے۔۔ اور ان ضرورتوں کے بہانے لوگوں کی روٹی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے گھر کی استری خراب ہوجاتی ہے۔ کبھی پنکھا چلتے چلتے بند ہوجاتا ہے۔۔ بجلی کی اشیاء مرمت کرنے والے کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس کی دہاڑی لگ جاتی ہے۔ سو روپے۔ ڈیڑھ سو روپے۔ اس کو اس کے بیوی بچوں کو بھی رزق پہنچتا ہے۔ گھر سے نکلے پتا چلا بائیک کا یا گاڑی کا ٹائر پنکچر ہے۔
پنکچر والے کو روزی ملتی ہے۔آپ اس کے دینے کے انداز تو دیکھو” عثمانی صاحب کی بات کرتے کرتے آواز بھرا گئی۔ اور آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ میرے منہ سے بے اختیار “سبحان اللہ” نکلا”۔۔میں نے کہا۔ “واہ۔۔ عثمانی صاحب آپ نے رازق کے رزق دینے کے انوکھے انداز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو ہم کبھی غور نہیں کرتے” عثمانی صاحب کہنے لگے۔ “یہی میں آپ کو سمجھا رہا تھا سمانا صاحب! آپ جو کہہ رہے تھے نا کہ آپ کا کاروبار بالکل ٹھپ ہوگیا ہے۔ اب کیا ہوگا۔ ” میں نے ہنستے ہوئے مداخلت کی۔
‘کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام ، مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا” عثمانی صاحب بھی ہنس پڑے۔
“جی بالکل۔۔ بالکل۔۔ آپ نے اور کچھ کرنا بھی نہیں ہے ۔ یہی کام کرتے رہئیے۔ محبت اور صرف محبت۔۔ اپنے کام سے۔ اپنے فرائض سے۔ اپنے لوگوں سے۔۔۔۔ محبت ہی کرتے رہئیے۔۔ اور پھر نتائج اس رازق پر چھوڑ دیجئے۔۔۔ وہ دے کے بھی آزماتا ہے۔ اور نہیں دے کے بھی۔۔ صبر اور شکر۔۔ یہ دو ہی چیزیں ہمارے بس میں ہیں۔ اور ہمارے شایان_شان بھی۔ رونا دھونا۔ شکایتیں کرنا۔ ناشکروں کا کام ہے۔”میں نے رک کے عقیدت سے ان کا ہاتھ تھاما۔اور اپنی آنکھوں سے لگایا۔ “حضرت! آپ نے آج مجھے نیا حوصلہ دیا ہے ۔۔ آپ سلامت رہیں”