مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں ’’1946ء کی ابتداء میں جب میں دارالعلوم سے ملازمت کا تعلق منقطع کر چکا تھا اور اپنے شوق سے بعض درجوں میں کچھ اسباق پڑھا دیا کرتا تھا۔ معلوم نہیں کیا خیال پیدا ہوا کہ دارالعلوم کی مسجد سے متصل جو چھوٹا سا مکان تعمیر ہوا تھا۔
اس میں، میں نے بھائی صاحب سے ضابطہ کی اجازت لے کر رہنا شروع کر دیا اور والدہ صاحبہ اور گھر والوں کو لے آیا۔ اس وقت معاش کا کوئی ذریعہ نہ تھا، نہ کتابوں کے معاوضہ اور نفع کا کوئی سلسلہ۔ یہ سال اقتصادی طور پر سخت پریشانی کا گزرا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ امین آباد کے چوراہے پر نظیر آباد جانے والی سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر میں نے جیب سے کئی مرتبہ گھڑی نکالی کہ اس کو کسی گھڑی کی دکان پر آدھے پونے دام پر بیچ دوں، اس سے کچھ دن کام چلے لیکن پھر اس خیال سے ہمت نہیں ہوئی کہ دکاندار کہیں چوری کی نہ سمجھے۔ یہ پورا سال پریشانی میں گزرا اور سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بے برکتی کیوں ہے؟ ایک دن معلوم ہوا کہ بھائی صاحب میرے اس علیحدہ قیام پر بہت مغموم اور متاثر ہیں، ان کو بڑا قلق ہے کہ ان کی زندگی میں، میں نے لکھنؤ میں رہتے ہوئے علیحدہ قیام کاانتظام کیا۔ میں نے ان سے رو کر معافی مانگی اور جبکہ تقریباً ایک سال گزر رہا تھا، میں پھر اپنے اسی قدیم مکان میں آگیا پھر یاد نہیں کبھی ایسی تنگی اور پریشانی پیش آئی ہو‘‘۔