قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ مولانا غازی احمد صاحب ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے ،تیرہ سال کی عمر میں انہوں نے اسلام قبول کیا، ان کے والدین اور سارا خاندان متعصب ہندو تھے، جس کی وجہ سے انہیں بڑی تکالیف سہنا پڑیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے اور اپنی زندگی کی ایمان افروز داستان ’’من الظلٰمٰت الی النور‘‘ کے نام سے لکھی ہے جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
جب ہندو 1947ء میں بھارت ہندوستان منتقل ہو رہے تھے اس زمانے کا وہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’لوگ جب کیمپ میں منتقل ہو رہے تھے تو میری خالہ نے والدہ صاحب کی وساطت سے ایک بوری میں لپٹا ہوا کچھ مال میرے پاس بطور امانت رکھا کہ اگر ہم چکوال کیمپ میں زندہ بچ گئے تو اپنا مال واپس لے لیں گے، اگر ہم مارے گئے تو یہ مال تمہارے کام آئے گا۔ میں نے کہا ’’خالہ جان! اللہ تعالیٰ آپ کوسلامت رکھیں، میں مال کا طالب نہیں ہوں‘‘۔ میں نے یہ مال صوفی جان محمد صاحب کو بتایا اور سامان ان کے گھر رکھ دیا، ایک روز میں نے صوفی صاحب سے کہا ’’دیکھیں تو سہی بوری میں کیا ہے‘‘ جب کھول کر دیکھا تو کپڑے میں تقریباً دو سیر سونا 80 پونڈ اور تقریباً بیس بائیس کلو چاندی تھی، مال کو اسی طرح باندھ کر بوری میں لپیٹ دیا گیا۔ ایک دن شام کے وقت اطلاع ملی کہ صبح چکوال سے ایک سپیشل ٹرین کیمپ والوں کو لے کر انڈیا جا رہی ہے، مجھے فوراً امانت کا خیال آیا، صوفی صاحب بھی گھر پر نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے امانت کو سائیکل پر باندھا اور چکوال روانہ ہو گیا، سورج غروب ہو چکا تھا اس دور میں راستہ بھی غیر محفوظ تھا۔ چکوال کے راستے میں ایک دو جگہ سکھوں کی لاشیں دیکھ چکا تھا مگر ضمیر کی آواز تھی کہ جلد چکوال پہنچ کر امانت خالہ کے حوالے کروں، عشاء کے وقت کیمپ میں پہنچ گیا۔
فوجی حضرات نے پوچھا، دیر سے آئے ہو، میں نے کہا ایک ضروری کام تھا جب میں کیمپ میں داخل ہوا تو میری خالہ اور خالو بہت خوش ہوئے کہ بھگوان کی دیا سے ہمارا مال پہنچ گیا ہے۔ کیمپ کے ہندو حضرات جمع ہو گئے، میں نے سائیکل سے امانت کھول کر خالو صاحب کے حوالے کی کہ اپنا مال دیکھ لیں، تمام حضرات میری دیانتداری پر بہت خوش ہوئے، ایک صاحب فرمانے لگے’’ہندو خون ہے، دیانتداری کیوں نہ ہو‘‘
میں نے کہا ’’جی حضرت! آپ غلط کہہ رہے ہیں اگر میں مسلمان نہ ہوتا تو یہ مال کب کا ٹھکانہ لگ چکا ہوتا، اسلام نے مجھے سکھایا ہے کہ امانت میں خیانت قبیح ترین جرم ہے، حق دار کو اس کا حق صحیح و سالم واپس کرو، خدا کا شکر ہے کہ میں مسلمان تھا او رآپ کا یہ حق واپس کر رہا ہوں، وہ صاحب کہنے لگے ’’اگر تمام مسلمان تمہاری طرح ہوتے تو شاید ہمیں اپنا حق اور علاقہ چھوڑ کر نہ جانا پڑتا‘‘ والدہ صاحبہ بہت خوش تھیں کہ تو نے میری عزت میں اضافہ کر دیا، میں خود بھی امانت واپس کر کے بہت خوش تھا کہ الحمد للہ میں نے بددیانتی کا ارتکاب کر کے اسلام کے مقدس دامن کو داغدار نہیں کیا، اللہ تعالیٰ مجھے حرام رزق سے بچائے۔