کابل(آن لائن)افغانستان کے شہر قندوز پر ایک بار پھر طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے کا شدید خطرہ ہے۔ اس شہر کے گرد و نواح میں افغان حکومتی دستوں اور طالبان جنگجوؤں کے مابین ہونے والی تازہ خونریز لڑائی اپنے پانچویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔افغان دارالحکومت کابل سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق قندوز شہر کے مضافات میں بیک وقت کئی مقامات پر طالبان عسکریت پسندوں
اور کابل حکومت کی سکیورٹی فورسز کے مابین شدید لڑائی جاری ہے اور حکام کے مطابق قندوز شہر پر طالبان ایک بار پھر قبضہ کر لیاہے۔ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ قندوز افغانستان کا شمال مشرقی صوبہ ہے اور اس صوبے کے اسی نام کے دارالحکومت کو شمال مشرق ہی میں تخار اور بدخشاں صوبے سے ملانے والی قندوز خان آباد ہائی وے گزشتہ پانچ دنوں سے بند ہے۔قندوز کی صوبائی کونسل کے ایک رکن سید اسداللہ سادات نے اس شہر سے ڈی پی اے کو بتایا کہ صوبے کے ضلع خان آباد میں اس مرکزی شاہراہ پر ملکی سکیورٹی دستوں کی کم از کم سات چیک پوسٹیں ایسی ہیں، جنہیں طالبان جنگجوؤں نے مسلسل اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اسداللہ سادات نے کہا، ’’ہمیں اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ قندوز ایک بار پھر طالبان کے قبضے میں چلا جائے گا۔‘‘2001ء4 میں کابل میں طالبان کی مرکزی حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کا یہ شہر 2015ء4 کے آخر میں پہلی مرتبہ طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ افغانستان میں امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجی مداخلت کے کئی برس بعد، آج سے دو سال سے بھی کم عرصہ قبل قندوز ملک کا وہ پہلا صوبائی دارالحکومت تھا، جس پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔لیکن اس قبضے کے صرف دو ہفتے بعد ہی افغان فورسز نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے اس صوبائی دارالحکومت کو دوبارہ چھڑا لیا
تھا اور عسکریت پسند وہاں سے پسپائی پر مجبور ہو گئے تھے۔ان واقعات کے قریب ایک سال بعد 2016ئکے آخر میں طالبان جنگجو ایک بار پھر قندوز شہر میں داخل ہو گئے تھے، جہاں ان کی ملکی دستوں کے ساتھ جھڑپیں کئی روز تک جاری رہی تھیں۔ اس دوسری مرتبہ بھی طالبان کو قندوز سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔اب یہ خدشات کافی زیادہ ہو چکے ہیں کہ طالبان ایک بار پھر قندوز شہر پر قابض ہو جائیں گے۔ قندوز کے ایک شہری نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’شہر میں رہنے والے ایسے قریب 30 فیصد خاندان، جو یہاں سے رخصتی کے متحمل ہو سکتے تھے، پہلے ہی یہاں سے جا چکے ہیں۔‘‘اسی لڑائی کے بارے میں قندوز پولیس کے ترجمان محفوظ اللہ اکبری نے کہا، ’’سرکاری سکیورٹی دستے افغان ایئر فورس کی مدد سے ان علاقوں اور اضلاع میں پیش قدمی کی کوششیں کر رہے ہیں، جہاں زیادہ شدید لڑائی جاری ہے۔‘‘
*