لندن(آئی این پی)برطانیہ کے شہر گلاسگو میں مشرقی یورپ سے لائی گئی لڑکیوں کے ساتھ پاکستانیوں کی جعلی شادیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مشرقی یورپ کے جرائم پیشہ گروہ ملک میں سمگل کر کے لائی جانے والی خواتین کا جنسی استحصال اور ان کو جعلی شادیوں پر مجبور کر رہے ہیں۔بی بی سی کے پروگرام ’’ انسان برائے فروخت‘‘ میں دکھایا گیا
سلواکیہ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو تین مرتبہ سمگل کر کے گلاسگو لایا گیا۔بہت سے خواتین کو ان مردوں سے جعلی شادیوں پر مجبور کیا گیا جن میں اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا اور جو برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔یورپی یونین میں شامل ملکوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سنہری خواب دکھا کر برطانیہ لایا جاتا ہے۔یورپول میں انسداد انسانی سمگلنگ کی اہلکار انجیلا مولنر نے کہا کہ متاثرہ خواتین جو رومانیہ اور سلواکیہ جیسے ملکوں میں غربت اور افلاس کی زندگیاں گزار رہی ہوتی ہیں انھیں روزگار کے بہتر مواقع کا جھانسہ دے کر سکاٹ لینڈ لایا جاتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسی خواتین کو سکاٹ لینڈ پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ نوکری تو کوئی نہیں پر انھیں کسی پاکستانی شخص سے فرضی شادی کرنا ہوگی۔مولنر نے کہا کہ شادی کے خواہش مند مرد برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے یورپی شہریت رکھنے والی کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان فرضی شادیوں کے بعد خواتین جرائم پیشہ گروہوں کے شکنجے میں رہتی ہیں اور انھیں یا تو فرضی شوہروں کے گھروں میں گھریلو ملازماں کے طور پر رہنا پڑتا ہے جہاں ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔یورپی انسداد انسانی سمگلنگ کی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ انسانی سمگلنگ منشیات کے بعد سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے اور جبری مشقت اور جنسی استحصال خواتین کو سکاٹ لینڈ سمگل کیے جانے کی دو بڑ ی وجوہات ہیں۔
مائگیرنٹ ہیلپ نامی غیر سرکاری تنظیم کے سابق سربراہ جم لیارڈ نے بتایا کہ مشرقی یورپ کے جرائم پیشہ گروہوں اور گلاسگو میں منظم جرائم میں کوئی براہ راست تعلق اب تک سامنے نہیں آیا۔مشرقی سلواکیا میں ایک گھر کے بارے میں پتا چلا ہے جہاں سلواکیا کے مختلف حصوں سے لائی جانے والی لڑکیوں کو جعلی شادیوں کی غرض سے گلاسگو بھیجے جانے سے قبل عارضی طور پر رکھا جاتا تھا۔اس گھر کے چاروں طرف باڑ لگی ہوئی تھی اور گیٹ پر موٹا سا تالا پڑا لگا ہوا تھا جب کہ گھر کے دروازوں اور کھڑکیوں کی نگرانی کے لیے کیمرے لگے ہوئے تھے۔ایک سماجی کارکن یوس اوگو سلواکیا اور گلاسگو میں ایسی خواتین کو بازیاب کرنے میں حصہ لے رہی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ کچھ لڑکیوں کے پاس کوئی شناختی اور سفری دستاویز نہیں ہوتی اور ایسی خواتین کو چوبیس گھنٹے کے اندر پاسپورٹ اور شناختی کارڈ فراہم کر دیے جاتے ہیں۔
اس گھر میں دو دن عارضی قیام کے دوران ان لڑکیوں کا حلیہ بدل دیا جاتا ہے اور انھیں خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیوں کہ زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق روما کمیونٹی سے ہوتا ہے۔یووس کا کہنا تھا کہ گلاسگو سلواکیا کے جرائم پیشہ گروہوں کا پسندیدہ ہدف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی روما برادری کے تیسرے ملک کے شہریوں جو برطانیہ کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں روابط رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ سمگلگروں کے گروہوں کی ان لوگوں سے دوستیاں ہیں اور افریقہ، افغانستان، پاکستان اور انڈیا کے لوگوں سے بھی رابطے ہیں۔