حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کے زمانے میں دو بھائی تھے ایک کا نام تھا ابوالفضل اور دوسرے کا نام فیضی، دونوں اپنے وقت کے بڑے بھاری عالم تھے، ان کے علم کا یہ حال تھا کہ انہوں نے عربی زبان میں قرآن مجید کی ایک بے نقطہ تفسیر لکھی، یعنی اس تفسیر میں با، تا، ثا، جیم، خا، ذال، زا، شین، غین، نون وغیرہ میں سے کوئی حرف بھی کہیں استعمال نہیں ہوا،
انہوں نے اس تفسیر کا نام ’’سواطع الالہام‘‘ رکھا، اس نام میں بھی نقطہ نہیں ہے، مجھے ایک لائبریری میں وہ تفسیر دیکھنے کا موقع ملا، میں حیران تھا کہ انہوں نے ایسے الفاظ کہاں سے ڈھونڈے ہوں گے، پورے قرآن مجید کی تفسیر لکھنا ہی کتنا بڑا کام ہے اور پھر ایسے الفاظ سے لکھنا جن میں کوئی نقطہ ہی نہ ہو بہت مشکل کام ہے، ظاہری طور پر دیکھئے کہ کتنی قابلیت ہے، بلا کے ذہین تھے، دونوں کے پاس فوٹو گریفک میموری تھی۔ابوالفضل بڑا تھا، اس کے سامنے اگر کوئی چیز دو مرتبہ پڑھ دی جاتی تھی تو اسے زبانی یاد ہو جاتی تھی، اور فیضی چھوٹا تھا اس کے سامنے اگر کوئی چیز ایک مرتبہ پڑھ دی جاتی تھی تو اسے زبانی یاد ہو جاتی تھی۔چنانچہ انہوں نے اس وقت کے شعراء کے ناک میں دم کررکھا تھا، جب کوئی شاعر بادشاہ کی منقبت لکھ کر لاتا تو بادشاہ اسے دربار میں کہتا کہ اپناکلام پیش کرو، وہ کھڑے ہو کر پڑھتا تو فیضی کو وہ منقبت یاد ہو جاتی اور وہ اٹھ کر کہتا: بادشاہ سلامت یہ تو میراکلام ہے، بادشاہ کہتا کہ اگر یہ تیرا کلام ہے تو پھرسناؤ، وہ کھڑے ہو کر پوری منقبت سنا دیتا، اب جب یہ سناتا تو دو دفعہ ہو جاتا، اس کے بعد بڑا بھائی بھی کھڑے ہو کرکہتا: بادشاہ سلامت! میں گواہی دیتاہوں کہ یہ میرے بھائی کا کلام ہے اورپھر وہ بھی سنادیتا تھا، اندازہ کریں کہ وہ کتنے ذہین تھے،
ان کے پاس اتنا علم تھا مگر اللہ رب العزت کے یہاں ان کی قبولیت نہ ہوئی اور فقط درباری ملا بن کر رہ گئے، یہی دو بھائی تھے جنہوں نے وقت کے بادشاہ کو فتویٰ دیا تھا کہ اس کے لیے تعظیمی سجدہ کرنا جائز ہے، امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کی مخالفت انہی دونوں نے کی اور ان کو جیل میں بھی انہی دونوں نے پہنچایا۔یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ دونوں وقت کے مجدد کے دشمن بن گئے تھے۔