اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حضور اکرم ﷺ نے ایک بار حضرت جبرائیل ؑ سے سوال پوچھا کہ اے جبرائیلؑ ! آپ کی عمر کتنی ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کی کہ محبوب خداﷺ مجھے اپنی عمر کے بارے میں تو صحیح پتہ نہیں ، ہاں میں آپ ﷺکو ایک بات بتاتا ہوں جس سے آپ ﷺ میر ی عمر کا اندازہ لگا سکیں گے وہ یہ کہ ایک ستارہ ہر 70ہزار سال بعد ظاہر ہوتا ہے
اور میں نے اس ستارے کو 70ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔حضرت جبرائیلؑ کی یہ بات سن کر سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ اے جبرائیل ؑ وہ ستارہ میں ہی ہوں۔ رب کائنات نے حضورﷺ کا نور کائنات کی تخلیق سے قبل ہی پیدا فرما دیا تھااورکائنات کی تخلیق کے وقت ہی عرشِ زمین پر حضرت محمدﷺ کا کلمہ تحریر کر دیا تھا جس کو دیکھ کرحضرت آدم ؑ اور حضرت حواؑ نے اللہ کی بارگاہ میں اس کلمہ کی وساطت سے معافی طلب کی ۔ شب معراج حضور اکرم ﷺ جب سدرۃ المنتہا پہنچے تو حضرت جبرائیل ؑ نے آگے جانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ اے حبیب خداﷺ اس سے آگے نہیں جا سکتا، میرے پر جلتے ہیں‘‘رب کائنات کا حکم ہوا کہ میرے حبیبﷺ آگے آجائیں، آپ سدرۃ المنتہا سے آگے تشریف لے گئے ، ایک پردہ تھا اور قلم کے چلنے کی آواز آرہی تھی ، پھر حکم ہوا اسے پردے سے بھی آگے آئیے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ میرے اور رب کائنات کے درمیان تمام پردے ہٹ گئے اور وہاں کوئی دوسرا نہ تھا‘‘۔آپﷺ نے جب مکہ کے مشرکین کو دعوت اسلام دی تو مشرکین مکہ بنی اسرائیل کی طرح طعنہ و تشنیع اور اعتراضات اٹھانے لگ گئے۔ آپ ﷺ سے معجزات طلب کرتے اور آپﷺ کو نعوذ باللہ جادوگر تک کہتے۔ ایک مرتبہ تو حد ہو گئی مشرکین مکہ نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور آپﷺ کے پاس
جا پہنچے اور آپﷺ سے کہا کہ ہم آپ ﷺ کو اللہ کا سچا پیغمبر اور رسول مان لیں گےمگر شرط یہ ہے کہ آپ ہمیں معجزہ دکھائیں اور چاند کو دو ٹکڑے کر دیں۔ مشرکین مکہ کی اس فرمائش پر سرور کائنات ﷺکی انگشت مبارک اٹھی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر جڑ گیا۔ انگلیاں دانتوں میں دابے مشرکین مکہ اپنے وعدے سے پھر گئے اور اسلام قبول نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ سے
محبت کا اظہار قرآن میں بھی جگہ جگہ فرمایا، پھر ایسا تو نہیں ہو سکتا نا کہ رب کائنات کا حبیب ہو اور کوئی وعدہ یا بات کر دے اور پوری نہ ہو۔آپ ﷺ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر سراقہ کو بشارت دی تھی کہ ایک وقت آئے گا سراقہ کہ تیرے ہاتھوں میں شاہ ایران کسریٰ کے کنگن ہونگے، اس وقت یہ بات سراقہ نہ سمجھ سکا اور حضور ﷺ کی اس بشارت کو پورا کرنے کیلئے رب کائنات نے
حضرت عمر ؓ کا دورہ خلافت چنا۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کی سربراہی میں مجاہدین کا لشکر ایران کی مہم پر تھا ، دریا کے اس پار لشکر اسلام اور دوسری جانب ایرانی فوج کھڑی تھی ۔ صحابی رسولﷺ نے دریا کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہم دریا کے اس پار جا رہے ہیں مجاہدین کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔مجاہدین نے حکم پاتے ہی تکبیر بلند کی اور دریا میں گھوڑے ڈال دئیے، صف بہ صف لشکر اسلام
دریا میں اتر گیا، اسی دوران ایک صحابی ؓکا پیالہ پانی میںگر گیا تو دوسرے ہی لمحے دریا کی ایک لہر نے اسے واپس آپؓ کی جھولی میں لا پھینکا۔ ایرانی سپاہ یہ منظر دیکھ کر حواس باختہ ہو گئی اور ’’دیواآمدن، دیواآمدن‘‘ کہتی بھاگ کھڑی ہوئی۔ کسریٰ قلعہ چھوڑ کر فرار ہو جاتا ہے ۔مسلمان سپاہ فتح کے بعد مال غنیمت جمع کرتی ہے اور مدینہ بھیج دیتی ہے ۔ پھر چشم فلک نے یہ نظارہ بھی
دیکھا کہ مال غنیمت پڑا ہے اور حضرت عمرؓ لوگوں میںتقسیم کر رہے ہیں کہ اچانک آپ کے سامنے کسریٰ کے کنگن آجاتے ہیں۔ آپؓ کنگن کو دیکھتے ہی آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور آواز دیتے ہیں ’’سراقہ کہاں ہے، اسے فوراَ یہاں لائو‘‘ ایک بوڑھا شخص سامنے آکھڑا ہوتا ہے ، حضرت عمرؓ مال غنیمت میں سے کنگن اٹھا کر اسے دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’لو یہ کنگن آج اللہ کے رسولﷺ کا وعدہ پورا ہوا اور یہ کسریٰ کے کنگن تمہارے ہوئے۔ سراقہ روتا جاتا اور کہتا جاتا ’’بے شک اللہ کے سچے نبی کا سچا وعدہ پورا ہوا اور یہ کنگن وہی تھے جن کا وعدہ اللہ کے نبی نے مدینہ کی جانب ہجرت کے وقت مجھ سے کیا تھا۔