نیویارک (نیوز ڈیسک) مغربی معاشرے میں مذہب اور روحانیت جیسی باتوں پر عموماً یقین نہیں کیا جاتا لیکن گزشتہ جمعہ کے روز پیش آنے والے ایک حادثے نے اس معاشرے کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ سالٹ لیک شہر میں ایک نوجوان خاتون اپنے والدین سے ملنے کے بعد اپنے گھر لوٹ رہی تھیں کہ راستے میں ان کی گاڑی سپینش فورک دریا میں جاگری۔ گاڑی دریا کے کنارے کے قریب گری اور اس حادثے میں 25سالہ خاتون لین گروس کی موت واقع ہوگئی البتہ جب دوسرے دن گاڑی کا پتہ چلا تو اس میں مرنے والی خاتون کی ڈیڑھ سالہ بیٹی زندہ موجود تھی۔
حادثہ رات ساڑھے دس بجے پیش آیا جبکہ اس کی خبر تقریباً 14گھنٹے بعد ہفتے کے روز ہوئی۔ چار پولیس اہلکاروں نے برفیلے پانی میں اتر کر گاڑی کو سیدھا کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بچی ساری رات منجمد کردینے والی سردی میں اپنی سیٹ کے ساتھ الٹی لٹکی رہی تھی۔ اس کی ماں کی موت ہوچکی تھی مگر وہ بے ہوش تھی۔
اگرچہ یہ بات بھی ناقابل یقین ہے کہ 14 گھنٹے برفانی رات میں گزارنے کے باوجود یہ بچی زندہ ہے مگر اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ چاروں پولیس اہلکار اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں گاڑی میں سے مدد کیلئے پکارا گیا تھا۔ ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ خاتون کی موت کئی گھنٹے پہلے ہی ہوچکی تھی اور یہ ممکن نہیں کہ وہ مدد کیلئے پکارتی، لیکن چاروں اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انہیں مدد کیلئے آواز آئی تھی۔
تیس سالہ اہلکار بیڈوس کا کہنا ہے کہ انہیں بچی کی ماں نے موت کے بعد اپنی بیٹی کی مدد کیلئے پکارا یا کسی فرشتے نے انہیں ننھی بچی کو بچانے کیلئے آواز دی، وہ نہیں جانتے، لیکن وہ اور ان کے تینوں ساتھی جانتے ہیں کہ انہیں کسی آواز نے حادثے کا شکار ہونے والی کارکی طرف بلایا۔ پولیس اہلکاروں کے بیان نے ہر سننے والے کو حیران کردیا ہے اور خصوصاً اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ چاروں اہلکاروں کو ایک ہی آواز کیسے سنائی دی اور یہ کس کی آواز تھی۔