اسلام آباد (احمد ارسلان )میرے ہاتھوں سے ، میرے ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں ۔۔کہ میں نے اسم محمد ؐ کو لکھابہت اور چوما بہت ۔عشق رسول ﷺ وہ موضوع ہے جس پہ جب بھی لکھا جا ئے تب تب قلم کی نوک تک مدح سرائی کی خاطر باادب محسوس ہوتی ہے ۔ الفاظ با وضو، ہاتھ باندھے،ادب سے ذہن کے دریچے میں کھڑے ہوتے ہیں کہ شاید ہم میں سے کسی کو آقا کریم ﷺ کی مدحت میں لکھی جا رہی اس تحریر کا حصہ بننے کا موقع مل جائے ۔
فضا معطر و منور ہو جاتی ہے اور پھر ذہن نہیں بلکہ دل الفاظ کی فراہمی کرتا جاتا ہے اور بس پھر لکھتے جائیں، لکھتے جائیں۔آج تحریر کا موضوع بہت مختلف مگر انتہائی اہم ہے ۔ ہم اپنے قارئین کو ٹیکنالوجی کی شاہکار اس’ ’فیس بک ‘‘ کے ذریعے نت نئی معلومات اور خبریں فراہم کرتے ہیں ۔ ہمارا مقصد اپنے قارئین تک محض سنی سنائی خبریں پہنچانا نہیں بلکہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں ہمارے ذریعے قارئین تک پہنچی خبر درست ہو وہیں اگر ہم خبروں کے اس میڈیم یا انٹرنیٹ پر کوئی ایسی خبرپائیں جس کا سچ سے کوئی تعلق نہ تو اسے قارئین تک درستگی کے ساتھ پہنچائیں ۔ گزشتہ روز گوگل پر ایک بہت ہی سنگین غلطی دیکھنے کو ملی جس پر چُپ رہنا کسی صورت ٹھیک نہ تھا ۔وہ غلطی یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے محض نبی کریم ﷺ کا نام پڑھ کر ہی نبی کریم ﷺ کی قبر انور کی تصویر سمجھ کر ایک تصویر کو شیئر کیا ہے جبکہ وہ قبر کی وہ تصویر مولانا جلال الدین رومیؒ کی ہے ۔بحیثیت مسلمان آپ سب سے گزارش ہےکہ محض حضور ﷺ کا نام لکھا دیکھ کر اس قدر سنگین غلطی کے موجب نہ بنیں
۔روضۂ رسول آنحضور محمّد مصطفیٰ صل الله علیہ و آ له وسلم کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ۸۸۱ھ (مطابق۷۶،۱۴۷۷ء) میں، حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کی چار دیواری کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت پڑ گئی۔ تاریخِ مدینہ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علامہ سمہودی کو تعمیر نو کے اس کام میں رضا کارانہ طور پر حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں: ۱۴ شعبان ۸۸۱ھ (مطابق ۲ دسمبر ۷۶،۱۴۷۷ء) کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی
۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چناں چہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں پچھلی طرف (یعنی شمالی سمت سے جو قبلے کے مخالف سمت ہے) سے داخل ہوا۔خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول الله اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی،
جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں قبریں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ میں تعمیر نو کے کام میں مشغول ہوگیا جو (سات ہفتوں میں) سات شوال ۸۸۱ھ (مطابق۲۳ جنوری۱۴۷۷ء) کو مکمل ہوا۔اب اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں،
اس دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوسکا- جو سعودی شرتے روضہ رسول کی صفائی پر مامور ہیں وہ بھی قبرمبارک تک نہیں پہنچ سکتے (چار دیواری کے باہر تک محدود ہیں) تو کوئی ایرا غیرا وہاں کیسے پہنچ سکتا ہے؟دوسری سوچنے کی بات ہے کہ جن مہر بند دیواروں کے اندر کوئی انسان پانچ صدیوں سے داخل نہ ہوا ہو، وہاں کسی قبر کا فوٹو کیسے لیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں کیمرے کی ایجاد ۱۸۲۰ء سے ۱۸۳۰ء کے عشرے میں دو فرانسیسی موجدوں نے کی، گویا کیمرہ ایجاد ہوئے ابھی پوری دو صدیاں بھی نہیں گزریں۔
ہم اپنے قارئین کیلئے ایسی چند تصاویر ذیل میں دے رہے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر آپ آئندہ احتیاط کر سکتے ہیں ۔
جبکہ مولانا جلال الدین رومیؒ کی قبر کی تصاویر بھی ملاحظہ ہوں