ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

’’کیا یہ بچپن میں شرارتی تھی ؟ ‘‘ بی بی سی اردو پر جب ملالہ کے والد سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے ملالہ کے بچپن کا کیا عجیب و غریب قصہ سنا دیا ؟

datetime 18  جنوری‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برمنگھم (آئی این پی )ملالہ یوسفزئی کی والدہ تورپکئی یوسفزئی نے کہاہے کہ جب ملالہ پر حملہ ہوا تو ان کے لیے وہ کڑا وقت تھا مگر اس حال میں بھی انھوں نے اللہ سے حملہ آور کو ہدایت دینے کی دعا کی۔ بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو میں ایک سوال پر تورپکئی نے کہا کہ ’میں نے اس حال میں بھی حملہ آوروں کے لیے بد دعا نہیں کی بلکہ میں نے کہا کہ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے۔تورپکئی نے کہا کہ اگرچہ ملالہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں مگر اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ ملالہ کی ماں ہیں نہ کہ ان دہشت گردوں کی جو خود کو اور دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔
سوچ رہی تھی کہ اْن حملہ آوروں کی مائیں کتنی افسردہ ہوں گی کہ ان کے بیٹوں نے ایک نہتی بچی پر گولی چلائی۔ انھوں نے گِڑگڑا کر اللہ سے دعا مانگی کہ وہی ملالہ کو زندگی دینے والا ہے۔مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ سکول جانے سے پہلے میں نے کسی بات پر ملالہ کا دل تو نہیں دکھایا تھا۔ فیس بک پر ایک سوال کہ سوات کتنا یاد آتا ہے، انھوں نے کہا کہ وہاں کی یاد انھیں بہت ستاتی ہے۔ خاص طور پر اپنی ضعیف والدہ کی یاد بہت آتی ہے۔ اس سوال پر کہ بچپن میں ملالہ شریر تو نہیں تھیں، تورپکئی نے کہا کہ وہ بہت صابر اور شاکر بچی ہے۔ اس نے انھیں کبھی تکلیف نہیں دی۔
ملالہ کے بچپن کا ایک واقعہ سناتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہم لوگ منگورہ میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ننھی ملالہ اپنی دادی سے ملنے شانگلہ گئی تو ان سے کہا کہ باتیں تو بہت ہیں جو میں آپ کو بتا سکتی ہوں، مگر امّی نے منع کیا ہے کہ گھر کی باتیں کسی سے مت کہنا!۔ تورپکئی سے پوچھا گیا کہ جو طالبات (کائنات اور شازیہ) ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں کبھی ان کا بھی ذکر ہوتا ہے؟‘تورپکئی نے بتایا کہ وہ برطانیہ ہی میں زیر تعلیم ہیں اور وہ اس بات پراللہ کی شکرگزار ہیں کہ ان کی زندگیاں محفوظ رہیں، کیوں کہ ہماری وجہ سے کسی کو نقصان پہنچتا تو بہت مشکل ہو جاتی۔اس موقعے پر ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے کہا کہ کائنات اور شازیہ ویلز میں زیر تعلیم ہیں۔ اور چھٹیوں میں وہ ان کے گھر جاتی ہیں اور یہ کہ وہ بھی تعلیم کے لیے ملالہ کی مہم کا حصہ ہیں۔
انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے علاقے بھساول سے نظام شیخ نے پوچھا تھا کہ ان والدین کے لیے ان کا کیا پیغام ہے جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتی ہیں۔تورپکئی نے کہا کہ ‘لڑکیاں بوجھ نہیں ہیں، ہم نے انھیں بوجھ بنا دیا ہے۔ بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ عورت بچوں کی پرورش اور تربیت کرتی ہے، اس لحاظ سے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ فرق صرف قلم کا ہے۔ لڑکی کو کوئی قلم نہیں دیتا، اس لیے وہ اندھیرے میں رہتی ہے۔ میری سب سے یہ درخواست ہے کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں۔
لوگوں کے منفی رویے اور غیر شائستہ زبان کے بارے میں تورپکئی کا کہنا تھا کہ اندھیرے کے بغیر روشنی کی قدر کیسے ہوتی اور برے لوگوں کے بغیر اچھوں کی پہچان کیسی ہوتی۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘گرمیوں میں لوگ سورج کو برا کہتے ہیں، مگر سردیوں میں اس کی گرمی کی خواہش کرتے ہیں۔ ملالہ کو جو مقام اللہ نے دیا ہے وہ بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا ہو گا۔ انھیں بھی آزادی ہیں اپنی بات کہنے کی۔تورپکئی نے کہا کہ ملالہ ان باتوں کی وجہ سے اپنے نصب العین سے ہٹنے والی نہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…