اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سینٹ کے انتخابات کیلئے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو تحریری جواب داخل کرانے کیلئے نوٹس جاری کردیا اور سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی‘ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا صدارتی آرڈیننس کی کاپی موجود ہے‘ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک رات پہلے نوٹیفکیشن جاری ہوا‘ کاپی نہیں مل سکی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت اس صورتحال میں کوئی احکامات جاری نہیں کرسکتی۔ جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں صدارتی آرڈیننس کیخلاف فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ غازی گلاب جمال کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کیخلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل شفقت عباسی عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سینٹ انتخابات کیلئے حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جس میں فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا گیا ہے اور فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ کی حیثیت بھی ختم کردی گئی ہے جس سے سینٹ کے حالیہ انتخابات میں وہ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا صدارتی آرڈیننس کی کاپی درخواست کے ساتھ مہیاءکی گئی ہے۔ عدالت کس طرح یقین کرلے کہ کیا صدارتی آرڈیننس جاری ہوا ہے یا کہ کوئی اور درخواست ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ایک رات پہلے تقریباً گیارہ بجے سینٹ کے حالیہ انتخابات کیلئے آرڈیننس جاری کیا گیا۔ عدالت سے استدعاءہے کہ صدارتی آرڈیننس کو غیرقانونی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے جس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو احکامات جاری کئے کہ آپ صدارتی آرڈیننس کی کاپی عدالت میں پیش کریں جبکہ عدالت نے وزارت قانون و انصاف کے سیکرٹری‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی اور کیس کی سماعت ملتوی کردی۔