جمعرات‬‮ ، 21 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

خواب اور حقیقتیں

datetime 5  مارچ‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خوابوں اور حقیقتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور عمران خان کو بہرحال خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہو گا‘ میں خوابوں اور حقیقتوں کی طرف آنے سے قبل ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں‘ عمران خان مستقبل کے روشن پاکستان کےلئے بہت ضروری ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بدقسمتی سے ایکسپوز ہو گئی ہیں‘ یہ عوامی توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کر سکیں‘ یہ دونوں پارٹیاں مستقبل میں مزید کمزور ہوں گی اور یہ اس وقت تک کمزور ہوتی رہیں گی جب تک یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کی طرح اپنی ازسر نو تعمیر نہیں کرتیں‘ یہ لوگ جب تک پارٹی کی نسوں میں نیا اور اہل خون نہیں لاتے‘ یہ لوگ جب تک اہلیت کو وفاداری کی جگہ نہیں دیتے اور پارٹیوں کی پالیسی میں یہ شفٹ اتنی جلدی نہیں آ سکے گی چنانچہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے آج اور کل کے درمیان خوفناک ویکیوم موجود ہے‘ یہ ویکیوم عمران خان کو پُر کرنا چاہیے‘ عمران خان کو ویکیوم کیوں پُر کرنا چاہیے اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ‘ عمران خان لبرل مسلمان ہیں‘ یہ مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں مرتے ملک کو سہارا دے سکتے ہیں اور دو اگر عمران خان درمیان سے ہٹ گئے تو پاکستان کا یہ ویکیوم طالبان یا داعش پُر کرے گی اور وہ لوگ ملک کےلئے کتنے خوفناک ثابت ہوں گے آپ اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں لہٰذا عمران خان کا قائم رہنا اور آگے بڑھنا ملک کےلئے بہت ضروری ہے لیکن آگے بڑھنے سے قبل عمران خان کو خوابوں کی دھند سے نکل کر حقیقتوں کی روشنی میں آنا ہو گا‘ یہ جتنی جلد حقیقتوں کا ادراک کر لیں گے یہ ان کےلئے اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ دوسری صورت میں عمران خان اور ملک دونوں کا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو جائے گا۔

PAKISTAN-UNREST-POLITICS

ہم اب آگے بڑھنے سے قبل ماضی کے چند خوابوں اور ان سے جڑی چند حقیقتوں کا تجزیہ کرتے ہیں‘ مثلاً خواب یہ تھا عمران خان 14 اگست 2014ءکو لاہور سے نکلیں گے‘ لاہور کے دس لاکھ لوگ ان کے ہمراہ ہوں گے‘ یہ قافلہ مریدکے پہنچے گا اور حکومت ختم ہو جائے گی لیکن حقیقت مختلف تھی‘ حقیقت یہ تھی عمران خان کے ساتھ دس لاکھ لوگ نہیں نکلے‘ ایک لاکھ موٹر سائیکل بھی نظر نہیں آئے‘ خواب یہ تھا عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہاﺅس‘ وزیراعظم ہاﺅس اور پی ٹی وی پر یلغار کریں گے‘

article-0-20EDC6E300000578-872_634x428

آرمی چیف جنرل راحیل شریف دو کور کمانڈرز کے ساتھ وزیراعظم ہاﺅس جائیں گے‘ وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے‘ عبوری حکومت بنائیں گے‘ نئے الیکشن ہوں گے‘ عمران خان وزیراعظم بنیں گے اور علامہ طاہر القادری کو صدر بنا دیا جائے گا لیکن حقیقت مختلف تھی‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ پارلیمنٹ ہاﺅس اور پی ٹی وی پر یلغار ضرورہوئی‘

soldiers-secure-ptv-as-marchers-storm-building-take-channel-off-air-1409610384-3623

ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے گیٹ بھی ٹوٹے‘ پی ٹی وی پر قبضہ بھی ہوا لیکن آرمی چیف نے وزیراعظم سے استعفیٰ لیا اور نہ ہی حکومت گئی‘یہ درست ہے ملک میں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے لیکن اس بار سیاسی جماعتیں ڈٹ گئیں‘ یہ اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ میں اکٹھی ہو ئیں اور یوں دھرنا ناکام ہو گیا‘ خواب تھا علامہ طاہر القادری اور عمران خان حکومت جانے تک ریڈ زون میں قیام کریں گے لیکن علامہ طاہر القادری 21 اکتوبر 2014ءکو اسلام آباد سے رخصت ہو گئے اور عمران خان نے 17 دسمبر2014ءکو دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا‘ خواب تو یہ تھا عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کریں گے اور ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگ ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے‘ خواب تو یہ تھا عمران خان عوام کو پورا ملک بند کرنے کا حکم دیں گے اور خیبر سے لے کر کراچی تک پورا ملک جام ہو جائے گا‘ خواب تو یہ تھا عمران خان عوام سے اپیل کریں گے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائیں اور باہر سے سرمایہ آنا بند ہو جائے گا‘ خان صاحب بجلی کے بل پھاڑیں گے اور عوام بجلی کے بل دینا بند کر دیں گے‘خان صاحب عوام کو ٹیکس نہ دینے کا حکم دیں گے اور لوگ ٹیکس دینا بند کر دیں گے‘ یہ میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلان کریں گے اور لوگ اخبار خریدنا اور ٹیلی ویژن چینلز دیکھنا بند کر دیں گے‘ یہ گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائیں گے‘ اٹھارہ کروڑ لوگ ہم آواز ہو جائیں گے اور ملک کی ساری سیاسی قیادت کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے‘ یہ اعلان کریں گے ہم حکومت چلانا مشکل بنا دیں گے اور حکومت چلانا واقعی مشکل ہو جائے گا اور یہ پارلیمنٹ کو چور اور ڈاکوﺅں کا ٹھکانہ کہیں گے‘ پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیں گے اور عوام جعلی نمائندوں‘ چوروں اور ڈاکوﺅں کو گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے لیکن حقیقت خوابوں سے مختلف نکلی‘ ملک بند ہوا‘ عوام نے ہنڈی کا حکم مانا‘ قومی بینکوں سے سرمایہ نکالا‘ ٹیکس دینے سے انکار کیا‘ بجلی کے کنکشن کٹوائے‘ اخبارات اور چینلز کا بائیکاٹ کیا‘ لمبے عرصے کےلئے گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائے‘ حکومت چلنی مشکل ہوئی اور نہ عوام نے جعلی نمائندوں کو گریبانوں سے پکڑ کر باہر گھسیٹا‘ یہ سارے خواب ٹوٹ گئے‘ خواب تھا ملک بدل جائے گا‘ ملک میں سونامی آ جائے لیکن حقیقت یہ ہے عمران خان اپنا ہر وہ فیصلہ‘ اپنا ہر وہ اعلان واپس لینے پر مجبور ہوئے جو انہوں نے کنٹینر‘ ریڈ زون اور پریس کانفرنس میں کیا تھا‘ آپ اعلانات کی فہرست نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو میری بات کا یقین آ جائے گا‘ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ” میں نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں جاﺅں گا“ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ” میں بجلی کا بل جمع نہیں کراﺅں گا“ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ” میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا“ کیا یہ اعلان نہیں ہوا ” میں ملٹری آپریشن کی حمایت نہیں کروں گا“ کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ” ہم نوے دنوں میں کرپشن ختم کریں گے اور بلدیاتی الیکشن کرائیں گے“ اور کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا ”نواز شریف کے استعفے تک مذاکرات نہیں کریں گے“ لیکن ان اعلانات کا کیا نتیجہ نکلا؟ آپ کوئی ایک دعویٰ بتائیے جو پورا ہوا ہو‘ آپ کوئی ایک وعدہ بتائیے جومونڈے چڑھا ہو؟ حقیقت تو یہ ہے‘ آپ 17 دسمبرکو پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس اور 24 دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس

IPWwE

میں اس میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھے جسے آپ صدی کا سب سے بڑا کرپٹ کہتے تھے اور آپ نے اس میاں نواز شریف کی تعریف کی جسے آپ چار ماہ برا بھلا کہتے رہے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے اس پارلیمنٹ کی 21 ویں ترمیم کی بھرپور حمایت کی جسے آپ جعلی قرار دیتے تھے اور آپ نے اسی جعلی پارلیمنٹ کو 22 ویں ترمیم پاس کرنے کی ترغیب بھی دی جسے آپ اور آپ کے اتحادی گرا دینا چاہتے تھے‘ آگ لگا دینا چاہتے تھے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے لیکن آپ اسی قومی اسمبلی کے بالائی ایوان سینٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں‘ آپ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو جعلی قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے الیکشنوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہے ہیں‘ حقیقت تو یہ ہے آپ اگر میاں نواز شریف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی مخالفت سے نہ گھبراتے تو آپ 22 ویں ترمیم کےلئے اپنے ایم این ایز کو قومی اسمبلی میں بھجوا دیتے اور ”اوئے نوازشریف“ کے ساتھ مل کر 22 ویں ترمیم پاس کرا دیتے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے سینٹ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کےلئے یکم مارچ کو اسی آصف علی زرداری کو فون کیا جسے آپ ملک دشمن قرار دیتے تھے‘ حقیقت تو یہ ہے آپ نے سات لوگوں کو سینٹ کے ٹکٹ دیئے اور ان میں سے چار امیدوار انتہائی امیر اور با اثر ہیں‘ آپ کو پورے خیبر پختونخواہ میں کوئی ایسا امیدوار نہیں ملا جو پڑھا لکھا‘ ذہین او ایماندار ہو مگر غریب ہو‘ آپ کو ذہانت‘ امانت اور تعلیم بھی ارب پتی لیاقت ترکئی‘ ارب پتی محسن عزیز اور بااثر چیف سیکرٹری کی بیگم میں نظر آئی‘ حقیقت تو یہ ہے آپ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی سیاسی بادشاہت کے خلاف ہیں لیکن آپ نے اپنی جماعت کے اندر خوفناک بادشاہت قائم کر رکھی ہے‘ آپ اختلاف رائے پر اپنے صدر جاوید ہاشمی تک کو فارغ کر دیتے ہیں‘ آپ پندرہ کروڑ روپے آفر کرنے والے کا نام تک نہیں بتاتے لیکن آزاد امیدوار کو سپورٹ کرنے والے جاوید نسیم کو پارٹی سے فارغ کر دیتے ہیں‘ حقیقت تو یہ ہے آپ دوسری جماعتوں کے لوگوں کو درباری اور لوٹے قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر میں الیکشن لڑنے کےلئے بیرسٹر سلطان محمود جیسے ان لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں جو چھ مرتبہ پارٹی تبدیل کر چکے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے آپ بہت جلد ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے‘ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی کھانا کھائیں گے اور آپ بالآخر قومی اسمبلی میں بھی چلے جائیں گے کیونکہ قومی اسمبلی ہو‘ مولانا فضل الرحمن ہوں یا ایم کیو ایم ہو یہ بہرحال سیاسی حقیقتیں ہیں اور کوئی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک ان سیاسی حقیقتوں سے دور نہیں رہ سکتی آپ کو بالآخر ان تین حقیقتوں کو بھی اسی طرح تسلیم کرنا پڑے گا جس طرح آپ 14 اگست سے یکم مارچ تک باقی حقیقتیں مانتے آ رہے ہیں اور آخری حقیقت !اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کا سسٹم بنانے کا موقع دیا تھا‘ یہ اگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تو ملک میں الیکشن اصلاحات بھی ہو جاتیں‘ الیکشن کمیشن بھی آزاد ہو جاتا‘ نئی ووٹر لسٹیں بن جاتیں اور ملک میں بائیو میٹرک سسٹم بھی لگ جاتا لیکن خان صاحب نے یہ موقع بھی ضائع کر دیا چنانچہ مجھے خدشہ ہے ہمارے اگلے الیکشن بھی پچھلے الیکشنوں کی طرح کمزور‘ دھاندلی زدہ اور غلط ہوں گے۔
میں تسلیم کرتا ہوں عمران خان ملک کےلئے ضروری ہیں‘ یہ نہ رہے تو ملک داعش کے قبضے میں چلا جائے گا‘ میں یہ بھی مانتا ہوں عمران خان کے مطالبات درست ہیں‘ ہمارے ملکی نظام میں واقعی خرابیاں ہیں اور ہم اگر ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ خرابیاں دور کرنا ہوں گی‘ میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت میں ملکی مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں‘ حکومت آج بھی اہل لوگوں کی ٹیم بنانے کی بجائے وفاداروں کا لشکر جمع کر رہی ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے‘ ہم جب تک ماضی کا گند صاف نہیں کریں گے‘ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے لیکن مجھے اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے طریقہ کار پر کل بھی اعتراض تھا‘ آج بھی اعتراض ہے اور اس دن تک اعتراض رہے گا جب تک یہ طریقہ کار نہیں بدلتے‘ یہ اپنی غلطیاں نہیں مانتے‘ یہ قومی اسمبلی میں نہیں آتے‘یہ اصلاحات نہیں کرتے‘ خان صاحب کو ایوان میں آنا چاہیے اور ایوان کے اندر سے تبدیلی لانی چاہیے‘ عمران خان کو ماننا ہو گا یہ سڑکوں کے ذریعے ملک کو تباہ تو کر سکتے ہیں لیکن تبدیل نہیں کر سکتے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…