کسی جنگل بیابان میں ایک غریب آدمی کا گدھا کیچڑ میں پھنس گیا ایک تو جنگل، دوسرا موسم بہت خراب، سردی کے موسم میں تیز ہوا چل رہی تھی اور بارش ہو رہی تھی۔ اس مصیبت نے غریب آدمی کو سخت مشتعل کر دیا تھا اور جھنجلاہٹ کے عالم میں گدھے سے لے کر ملک کے بادشاہ تک، سب کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بادشاہ اپنے لاؤلشکر کے ساتھ اس طرف سے گزرا اور اس نے یہ بدکلامی اپنے کانوں سے سن لی،
وہ وہیں رک گیا اور اس خیال سے اپنے لشکریوں کی طرف دیکھا کہ وہ اس معاملے میں اپنی رائے دیں۔ایک صاحب نے بادشاہ کی منشا سے آگاہ ہوکر کہا، یہ گستاخ واجب القتل ہے۔ اس نے حضور کی شان میں گستاخی کی ہے۔ بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور تحمل سے بولا، بے شک اس نے گستاخی کی ہے لیکن دراصل اس مصیبت نے اسے حواس باختہ کر دیا ہے جس میں پھنسا ہوا ہے۔اسے سزا دینے کے مقابلے میں مناسب یہ ہو گا کہ اسے مصیبت سے نکالا جائے اور اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔یہ کہہ کر بادشاہ نے نہ صرف اس کا گدھا کیچڑ سے نکلوا دیا بلکہ اسے سواری کیلئے گھوڑا، پوشین اور نقدی بھی عطا کی۔ انعام عطا کرنے کے بعد بادشاہ آگے بڑھ گیا تو ایک شخص نے گدھے والا سے کہا، تو نے اپنے ہلاکت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اسے خدا کا خاص انعام خیال کر کہ تیری جان بچ گئی، وہ بولا بھائی! میں اپنی حالت کے مطابق بک بک کر رہا تھا اور بادشاہ نے اپنی شان کے مطابق مجھ پر کرم کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ برائی کے بدلے بھلائی کرنا ہی جوان مردوں کا شیوہ ہے۔حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں قرآن مجید کی اس آیہ شریفہ کی تشریح کی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’جو تجھ سے توڑے تو اس سے جوڑ، جو تجھے محروم کرے تو اسے دے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ خدائی قانون میں بھی بدلہ اور انتقام لینے کی اجازت ہے لیکن مقام احسان یہ ہے کہ برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کی جائے۔