جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

“روڈیل تم اس رقم کا کیا کرو گے”

datetime 9  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فلپ ایٹکنز اپنی گرل فرینڈ سٹیسی آرمسٹرانگ کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا‘ یہ مکی کوبرا گینگ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا‘ شکاگو شہر میں بے شمار گینگز ہیں‘ مکی کوبرا ان گینگز میں سے ایک گینگ تھا اور فلپ ایٹکنز اس گینگ کا کل پرزہ تھا‘ یہ 15 دسمبر 1993ء کی رات اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ سفر کر رہا تھا‘ اچانک اس کی گاڑی پر حملہ ہوگیا‘ فلپ مارا گیا‘ سٹیسی آرم سٹرانگ زخمی ہو گئی‘ پولیس آئی‘ فلپ کی لاش اٹھائی‘ سٹیسی آرام سٹرانگ کو ہسپتال پہنچایا اور تفتیش شروع کر دی‘ پولیس نے سٹیسی کو شہر کے تمام گینگسٹرز کی تصاویر دکھائیں‘ سٹیسی نے ان میں سے ایک شخص کو شناخت کر لیا‘ سٹیسی کا کہنا تھا یہ شخص حملہ آور جیسا دکھائی دیتا ہے‘ اس شخص کا نام روڈیل سینڈرز تھا‘ وہ سیاہ فام تھا اور پولیس اسے اکثر چھوٹے موٹے جرائم میں بلاتی رہتی تھی‘ پولیس نے 14 جنوری 1994ء کو روڈیل سینڈرز کو گرفتار کر لیا‘ روڈیل نے قتل سے انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ’’میں قتل کی رات موقع واردات سے بہت دور بیٹھا تھا‘ مجھے جان بوجھ کر پھنسایا جا رہا ہے‘‘ لیکن پولیس نے اس کا موقف مسترد کر دیا‘ پولیس نے سٹیسی سمیت آدھے درجن گواہ جمع کر لئے‘ گواہوں میں ہیز لیٹ (Haslett) نام کا ایک گینگسٹر بھی شامل تھا‘ ہیز لیٹ نے گواہی دے دی‘ پولیس نے مقدمہ عدالت میں پیش کر دیا‘ جج نے گواہوں کی گواہی اور پولیس کی تفتیش کی روشنی میں جنوری 1995ء میں روڈیل سینڈرز کو 80 سال قید کی سزا سنا دی‘ روڈیل کی عمر اس وقت 30 سال تھی‘ وہ شادی شدہ تھا‘ اس کے تین بچے تھے‘ اس نے فیصلے کے خلاف اپیل کی لیکن بدقسمتی سے اپیل خارج ہو گئی جس کے بعد روڈیل تھا‘ جیل تھی اور زندگی کے بے کیف دن اور رات تھے‘ مجرم نے اب پوری زندگی جیل میں گزارنی تھی۔

روڈیل کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ قسمت کے لکھے کو مان کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا یا پھر یہ انصاف کیلئے ’’فائیٹ‘‘ کرتا‘ روڈیل ’’نیچرل فائیٹر‘‘ تھا‘ یہ ڈٹ گیا‘ اس نے ہار ماننے سے انکار کر دیا‘ اس کا فیصلہ اچھا تھا لیکن قانون سے لڑنے کیلئے قانون دانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے وکیلوں پر یقین نہیں تھا‘ روڈیل کا خیال تھا وکیلوں کو صرف فیس سے غرض ہوتی ہے‘ یہ لوگوں کو صرف قانون کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ قانون کسی کو مجرم سمجھ رہا ہے تو وہ شخص مجرم ہے خواہ وہ کتنا ہی معصوم کیوں نہ ہو اور اگر کسی شخص کو قانون نے بے گناہ قرار دے دیا تو وہ شخص کھوپڑیوں کے مینار بنائے یا ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دے وہ ہیرو ہوتا ہے‘ روڈیل سمجھتا تھا وکیلوں کے پاس درجنوں کیس ہوتے ہیں‘ یہ ہر کیس کو مکمل توجہ نہیں دے سکتے اور وہ یہ بھی سمجھتا تھا وکیل سست ہوتے ہیں‘ یہ مؤکل کیلئے زیادہ کام نہیں کرتے مثلاً اس کا خیال تھا‘ اس کا وکیل اگر سٹیسی اور ہیز لیٹ پر جرح کرتا تو وہ لوگ یقیناًجھوٹے ثابت ہو سکتے تھے لیکن وکیل نے ان پر توجہ نہیں دی‘ روڈیل نے سوچا میں نے اگر انصاف لینا ہے تو پھر مجھے اپنا کیس خود لڑنا ہو گا لیکن کیس لڑنے کیلئے قانون کی تعلیم ضروری تھی اور وہ سکول سے بھاگا ہوا تھا‘ وہ کئی دن سوچتا رہا یہاں تک کہ اس نے جیل میں رہ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے والدین سے قانون کی کتابیں فراہم کرنے کی درخواست کی‘ والدین غریب اور کتابیں بہت مہنگی تھیں لیکن والدین نے اس کے باوجود ہزار ڈالر جمع کئے‘ قانون کی کتابیں خریدیں اور یہ کتابیں روڈیل کو جیل میں پہنچا دیں‘ اس نے خود کو مطالعے کیلئے وقف کر دیا‘ وہ ہفتے میں ساتوں دن روزانہ گیارہ گھنٹے پڑھتا تھا‘ اس نے والدین‘ بیوی اور بچوں کو اپنی ملاقات تک سے روک دیا‘ وہ مسلسل پڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ پورا قانون گھول کر پی گیا‘ اس نے جیل سے قانون کے امتحان بھی دیئے اور وہ یہ امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کر گیا‘ روڈیل نے 8 سال قانون کی کتابیں پڑھیں‘ وہ قانون سمجھ گیا‘ اس نے 2003ء میںاپنی پٹیشن تیار کی اور یہ پٹیشن اپیلٹ کورٹ بھجوا دی‘ وہ اگلے تین سال اپیلٹ کورٹ کو پٹیشن کی منظوری کیلئے درخواستیں دیتا رہا‘ اس نے بالآخر عدالت کو قائل کر لیاکہ مقدمے کا اہم ترین گواہ ہیزلیٹ جھوٹ بول رہا تھا اور وکلاء نے جان بوجھ کر اس جھوٹ کا پردہ فاش نہیں کیا‘ اپیلٹ کورٹ نے 2006ء میں درخواست سماعت کیلئے منظور کر لی‘ یہ سماعت 2008ء تک چلی‘ روڈیل نے دو برسوں میں ثابت کر دیا گواہ ہیزلیٹ نے پولیس کے دباؤ میں آ کر گواہی دی تھی‘ وہ جھوٹا تھا اور وہ ابتدائی سماعتوں میں اپنے جھوٹ کا اعتراف کر چکا تھا لیکن پولیس اور سرکاری وکلاء نے جان بوجھ کر اس کے اعتراف کو کیس کا حصہ نہیں بنایا‘ اپیلٹ

کورٹ نے روڈیل کا موقف تسلیم کر لیا‘ مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کے سپرد کر دیا گیا‘ ٹرائل کورٹ نے روڈیل کا کیس کھولا اور اکتوبر 2010ء کو از سر نو سماعت شروع کر دی‘ روڈیل نے اپنا مقدمہ خود لڑنا شروع کر دیا‘ یہ کیس اب میڈیا میں آنے لگا‘ شکاگو یونیورسٹی کے لاء ڈیپارٹمنٹ نے بے گناہ مجرموں کی مدد کیلئے خصوصی شعبہ بنا رکھا ہے‘ روڈیل کیس کی خبریں یونیورسٹی تک پہنچیں‘ یونیورسٹی نے روڈیل کی قانونی معاونت کا فیصلہ کر لیا یوں روڈیل کو مفت شاندار وکیل مل گئے‘ یونیورسٹی کے وکلاء 2011ء میں عدالت میں پیش ہونے لگے‘ روڈیل نے 2013ء میں شکاگو پولیس کے خلاف بھی کیس کر دیا‘ اس کا کہنا تھا‘ پولیس نے مجھے پھانسنے کیلئے جعلی شواہد بنائے‘ گواہ خریدے اور میرے مقدمے سے اہم ترین دستاویز نکال دیں‘ عدالت نے یہ کیس بھی سماعت کیلئے منظور کر لیا‘ مقدمہ چلتا رہا یہاں تک کہ ٹرائل کورٹ نے 22 جولائی 2014ء کو ہیزلیٹ کو جھوٹا گواہ اور روڈیل کو قتل کی رات جائے وقوعہ سے دور تسلیم کر لیا‘ اسے باعزت بری کر دیا گیا۔ روڈیل سینڈرز ساڑھے بیس سال بعد جیل سے رہا ہو گیا‘ وہ جیل سے باہر نکلا تو دنیا بدل چکی تھی‘ وہ جب گرفتار ہوا تھا تو امریکا بھر میں لینڈ لائین ٹیلی فون تھے‘ وہ واپس آیا تو دنیا ٹچ سکرین تک پہنچ چکی تھی‘وہ جیل گیا تو لوگ گھروں میں کھانا تیار کرتے تھے‘ وہ واپس آیا تو ملک بھر میں جنک فوڈ کا کلچر آ چکا تھا‘ لوگ آرڈر کرتے ہیں اور ڈیلیوری بوائے گھر کے دروازے پر خوراک ڈیلیور کرجاتے ہیں‘ وہ جب اندر گیا تو لوگ پرسنل کمپیوٹر استعمال کرتے تھے‘ کمپیوٹر کی سکرین بلیک اینڈ وائیٹ ہوتی تھی اور پرنٹرز نہ ہونے کے برابر تھے لیکن وہ واپس آیا تو پرسنل کمپیوٹر لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس سے ہوتے ہوئے سمارٹ فون تک آ چکے تھے‘وہ جیل گیا تو انٹرنیٹ صرف سرکاری محکموں میں ہوتا تھا ‘ وہ جب واپس آیا تو پوری دنیا وائے فائے سے جڑ چکی تھی‘ وہ جیل گیا تو دنیا میں گوگل‘ ایمازون اور فیس بک کا نام و نشان نہیں تھا لیکن وہ واپس آیا تو یہ تینوں دنیا کی مشہور ترین فرمز بن چکی تھیں‘ وہ جب جیل گیا تھا تو امریکا میں بل کلنٹن کی حکومت تھی اور وہ واپس آیا تو تاریخ کا پہلا سیاہ فام باراک حسین اوبامہ امریکا کا دوسری بار صدر منتخب ہو چکا تھا اور وہ جب جیل گیا تو اس کے تین بچے تھے‘ وہ واپس آیا تو وہ سات بچوں کا دادا بن چکا تھا‘ دنیا بدل چکی تھی‘ روڈیل سینڈرز جیل سے نکل کر کلچرل شاک کا شکار ہوگیا‘ یہ دو سال ان شاکس میں رہا‘ یہ بمشکل زندگی کے ساتھ دوبارہ جڑنا شروع ہوا تھا کہ اچانک ایک اور دھماکہ ہو گیا‘ آج سے 10دن قبل 28 ستمبر 2016ء کو عدالت نے اس کے دوسرے مقدمے کا فیصلہ بھی سنا دیا‘ عدالت نے شکاگو پولیس کو روڈیل سینڈرز کے 20 سال برباد کرنے پر 15 ملین ڈالر جرمانہ کر دیا‘ یہ رقم پاکستانی روپوں میں ڈیڑھ ارب روپے بنتی ہے‘ روڈیل سینڈرز فیصلہ سننے کے بعد عدالت سے نکلا اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنا شروع کر دیا‘ اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اس فیصلے پر قہقہہ لگائے یا پھر پھوٹ پھوٹ کر روئے‘ یہ رقم 51 سال کے ایک ایسے شخص کیلئے سزا سے کم نہیں تھی جس نے ساڑھے 20سال جیل میں بے گناہی کی سزا بھگتی ہو اور جسے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کیلئے 19 سال قانون پڑھنا پڑا ہو‘ روڈیل شکاگو کے فٹ پاتھ پر پیدل چل رہا تھا اور اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا ’’روڈیل تم اس رقم کا کیا کرو گے‘‘ وہ چلتا رہا‘ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ

تھک کر فٹ پاتھ کے بینچ پر بیٹھ گیا‘ آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے‘ روڈیل سینڈرز کے پاس کم از کم ایک سوال تو تھاجبکہ پاکستانی مظہر بغیر سوال کے دنیا سے گزر گیا‘ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 6 اکتوبر کو19 سال بعد مظہر کو بے گناہ قرار دیا لیکن جب کورٹ کا یہ فیصلہ جیل پہنچا تو بے گناہ مظہر کو مرے ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔میں پریشان ہوں روڈیل خوش نصیب ہے یا مظہر۔؟؟
یہ بے گناہ مظہر کون تھا‘ یہ آپ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجئے گا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…