اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر ، جنرل عاصم باجوہ نے اچکزئی کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے صحافی کے سوال پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی سے غافل نہیں ہیں مگر کچھ کام پارلیمنٹ کے کرنے کے بھی ہیں لہذا یہ کام وہی کریں تو بہتر ہے فوج کے ذمہ جو کام ہیں فوج کو بس وہی کام کرنے دیا جائے ، ضرورت پڑی تو ہم ضرور کارروائی کریں گے ۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل ، لیفٹنٹ جنرل عاصم باجوہ کی پریس کانفرنس کے دوران جب انہوں نے ذکر کیا کہ ایک ملک کے خلاف نعرے لگانے والا پانچ ہزار کلومیٹر دور ہے تو ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ الطاف حسین تو پانچ ہزار کلومیٹر دور ہے اچکزئی تو آپ کے بالکل قریب بیٹھا ہے آپ اسے کیوں نہیں پکڑتے تو اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر پارلیمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سے کوئی غفلت میں نہیں ہے لیکن فوج کا کام ضرب عضب اور دیگر زمینی حوالہ جات سے ملک کا دفاع کرنا ہے اور کچھ چیزیں دوسروں کے کرنے کی بھی ہوتی ہیں لہذا یہ سوال کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی قیادت کے حوالے سے ہے لہذا آپ جو کہ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرتے ہیں آپ کو چاہئے کہ یہ سوال ان سے کریں مگر یہ واضح کر لیں کہ اس طرح کی کسی بھی بات سے غفلت نہیں برتی جارہی اور ایسے تمام افراد اور واقعات کے بارے میں ہم پوری طرح آگاہ ہیں اور ضرورت پڑنے پر بھرپور کارروائی کریں گے ۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ پنجاب میں رینجرز کو اختیارات دینے کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے ، پاکستان مخالف نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں،ایم کیو ایم کے خلاف کچھ ایکشن ہو چکے ہیں اور کچھ آنے والے دنوں میں ہوں گے اس حوالے سے حکومت بھی کارروائی کررہی ہے ، پاکستان میں اچھے اور برے دہشت گرد کا کوئی تصور نہیں، حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کو بلا تفریق مارا گیا،شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا ہو چکا ،اب شوال کا علاقہ سوئٹزلینڈ اور پیرس جیسا بن چکا ہے، ملک میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرونس پائی جاتی ہے،،ملک بھر میں168 کومبنگ آپریشن کئے گئے ،داعش نے پاکستان میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کی لیکن پاکستانی معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا ، داعش سے تعلق رکھنے والے 309 افراد گرفتار کیا جن میں 25 غیر ملکی تھے، 157 چھوٹے گروپس بھی ملوث تھے، گلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ایک نیٹ ورک پکڑا گیا ہے ، پاکستان میں بھارتی مداخلت کی بات ثابت ہو چکی ہے ، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ آپریشن ضرب عضب بلاتفریق کیا گیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ 15 جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور اس آپریشن کے حوالے سے کئی گائیڈ لائنز طے کی گئی تھیں جن میں سے اہم ترین گائیڈلائنز یہ تھیں کہ آپریشن بلاتفریق ہوگا، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، عام شہریوں اور املاک کے نقصان سے بچنے کی کوشش کی جائے گی اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جب آپریشن شروع ہوا تو اس وقت کوئی شمالی وزیرستان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ علاقہ ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی کا مرکز بنا ہوا تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب شمالی وزیرستان میںآپریشن کرکے دتہ خیل تک پہنچے تو وادی کو کلیئر کیا اور جب فوج سرحد کی طرف جارہی تھی تو کچھ دہشتگرد افغانستان سے ہوتے ہوئے خیبر ایجنسی میں چلے گئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب دہشتگرد خیبر ایجنسی میں اکھٹا ہونا شروع ہوئے تو ہم نے خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے وہاں بھیآپریشن شروع کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگاہ کیا گیا، افغان صدر، افغان فوج اور دیگر حکام کو آگاہ کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ سرحد کے دوسری طرف تمام ضروری اقدام کریں اور بھاگ کر وہاں جانے والے دہشتگروں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔عاصم باجوہ نے بتایا کہ آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود اور نفرت انگیز مواد ضبط کیے گئے۔انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں نے اتنا بارود اکھٹا کررکھا تھا کہ اگر اس سے روزانہ پانچ بم بناتے تو 21 سال تک یہ مواد چل سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیر ستان انتہائی مشکل علاقہ ہے لیکن سردی اور گرمی کی پروازہ کیے بغیر پاک فوج کے جوانوں نے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس سے بھی زیادہ مشکل خیبر ایجنسی کے علاقے تھے، یہاں برفانی پہاڑیاں تھیں اور یہاں مورچے بنے ہوئے تھے، یہاں ہمارا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 900 دہشتگرد مارے اور وہاں ہر طرح کا دہشتگرد مارا اور ان کے نیٹ ورک ختم کیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابیاں ایسے ہی حاصل نہیں کیں، صرف ضرب عضب میں 535 شہید 2272 زخمی ہوئے۔ضرب عضب کی کامیابیوں کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد واقعات کی شرح میں کمی آئی اور ہم اسے مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور 66 فیصد آئی ڈی پیز واپس جاچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 168 کومبنگ آپریشن ملک بھر میں ہوچکے ہیں اور جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے ہم کومبنگ آپریشن کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ داعش کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیں گے، داعش نے ہمارے علاقوں میں بھی پہنچنے کی کوشش کی۔10 جنوری 2015 کو ٹی ٹی پی کے لوگوں نے داعش کو بیعت کی اور افغانستان میں کی اور وہیں سے ویڈیو ریلیز کی، 26 جنوری کو ان کی بیعت قبول ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر داعش سے تعلق رکھنے والے 309 افراد گرفتار کیا جن میں 25 غیر ملکی تھے، 157 چھوٹے گروپس بھی ملوث تھے، لوگوں کو ہزار ہزار روپے دے کر بھی کام کرائے گئے۔انہوں نے بتایا کہ حافظ عمر داعش میں پاکستان کا امیر تھا اس نے 15 قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہید کیا اور میڈیا ہاؤسز پر حملے کیے۔انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردی میں 74 فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 94، بھتہ خوری میں 95 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ رینجرز کے 30 اہلکار شہید اور 89 زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے ہمدردوں کو بھی گرفت میں لیا گیا اور ان کی افغانستان میں موجودگی بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے پاکستان میں ان کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آنے والے دنوں میں کچھ ایکشن ہوں گے کچھ ہوچکے ہیں، پاکستان مردہ باد کے نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں، حکومت اس حوالے سے ایکشن لے رہی ہے ،پاکستان مخالفت بیانات دینے والا شخص برطانوی شہری ہے۔متحدہ قائد کی تقریر پر جن لوگوں نے املاک کو نقصان یا پرتشددکارروائیاں کیں ان کے خلاف ایکشن لینے کے لئے اسی رات ایم کیو ایم کی قیادت کو رینجرز ہیڈکوارٹر بلایا گیا اور جو لوگ ان کارروائیوں میں ملوث تھے ان کی ویڈیو فوٹیج کے ذریعے ایم کیو ایم کی قیادت سے نشاندہی کروائی گئی ،جو لوگ ان کارروائیوں میں ملوث نہیں تھے ان کو چھوڑدیا گیا اور ملوث تھے ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے ،پاکستان مخالف نعرہ ایک غیر ملکی شہری نے لگایا جو کسی صورت قبول نہیں ،اداروں سے بڑھ کر سب سے بڑی بات پاکستان مخالف نعرے لگانے کی ہے ،انہوں نے کہا کہ پہلے ایک فون کال پر کراچی بند ہو جاتا تھا لیکن اب وہ صورت حال نہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کی 26 سو کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو کھلی ہوئی ہے اور دونوں طرف قبائل آباد ہیں، اس چیلنج کو سمجھتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع کیا اور سرحد پر کراسنگ پوائنٹس بنیں گے۔پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین ہیں ان ہی میں آکر چھپنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈنا بھی بڑا چیلنج ہے، ان کی باوقار واپسی کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی واپسی حکومت کا مسئلہ ہے، ہمارا کام صرف سکیورٹی کی حد تک محدود ہے۔انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے دیے گئے بیان پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اچھے اور برے دہشت گرد کا کوئی تصور نہیں، ہم نے آپریشن شروع کرنے سے قبل کہا تھا کہ یہ بلاتفریق ہوگا اور بلا رنگ و نسل کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان سمیت تمام دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور اس حوالے سے بیان درست نہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا۔بلوچستان میں بلوچی ریڈیو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے بیان کا رد عمل آپ نے بلوچستان میں دیکھ لیا۔انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی استحکام آیا ہے اور فوج نے بحیثیت ادارہ بہت تعاون کیا ہے، باہر سے ہونے والے پروپیگنڈہ وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں یہاں مسترد کیا جاچکا ہے۔بلوچستان میں مثبت چیزیں بھی ہورہی ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہیے، بلوچستان میں حالات بدل رہے ہیں،بلوچستان جائیں گے اور وہاں کے لوگوں سے بات کریں گے، گلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ایک نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان میں ہندوستانی مداخلت ہے۔
الطاف حسین تو پانچ ہزار کلومیٹر دور بیٹھا ہے ، لیکن اچکزئی تو آپ سے پانچ کلومیٹر دور ہے ؟ آپ اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے ؟ صحافی کےسوال پر جنرل عاصم باجوہ کا دلچسپ جواب
2
ستمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں