لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا میں مچھروں کو سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتے ہیں۔ مچھروں کی وجہ سے ہر سال لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی شخص مچھروں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں لیکن یقین جانیے دنیا میں مچھروں کی موجودگی ناگزیر بھی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پانی میں رہنے والا یہ طفیلیہ مچھلیوں، پرندوں، چمگادڑوں اور مکڑیوں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس کے علاوہ نر مچھر پودوں کی پولینیشن کے عمل میں بھی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خون چوسنے والا یہ طفیلیہ حیران کن زندگی کا حامل ہے۔ صرف مادہ مچھروں کو اپنے انڈوں کے لیے پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جو خون سے پوری ہو سکتی ہے۔ مادہ مچھروں کی وجہ سے ہی وائرس انسانوں یا دیگر جانوروں میں منتقل ہوتا ہے۔ جبکہ نر مچھر سبزی خور ہوتے ہیں اور زیادہ تر پھولوں کے رس پر ہی گزارا کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق مچھر اس وقت تک اپنی جگہ تبدیل نہیں کرتے جب تک انہیں اس کی اشد ضرورت نہ ہو۔ اگر آپ ایک ایسے مقام پر رہتے ہیں جہاں مچھر موجود ہیں تو وہ خون کی تلاش میں دو کلومیٹر دور نہیں جائیں گے۔ وہ آپ سے کوئی دس میٹر دور جگہ کا انتخاب کریں گے۔ مچھروں کی حرکت کم فاصلے تک محدود ہوتی ہے جو چند سو میٹر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ایک مچھر کی زندگی عمومی طور پر دو ہفتوں کے قریب ہوتی ہے۔ مچھروں کے پر ایک سیکنڈ میں قریب پانچ سو مرتبہ پھڑپھڑاتے ہیں اور یہ مجموعی طور پر دو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ صرف سالٹ مارش نامی مچھر خوراک کے حصول کے لیے ایک سو ستر کلومیٹر تک جا سکتا ہے۔مچھر انٹارکٹیکا کے علاوہ دنیا کے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں اور انسانوں سمیت دیگر جانوروں کی مدد سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ یہ خود بھی نہایت متحرک ہوتے ہیں۔ مچھروں کی کئی اقسام انسانوں کے ہم راہ دنیا کے ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہنچی ہیں اور حالیہ کچھ دہائیوں میں اس قسم کی تبدیلی میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 1939ء میں مچھروں کے خاتمے کیلئے دوا ایجاد کی گئی لیکن یہ طفیلیہ حالات سے مطابقت رکھنے اور ہر طرح کے زہر سے خود کو ہم آہنگ کر کے پہلے سے زیادہ قوت سے سامنے آتا ہے۔ زمین پر ڈائنوسارز کی موجودگی سے بھی قبل یہ کیڑا موجود تھا۔ کچھ بھی ہو، دنیا کے فطری نظام میں مچھروں کے لیے جگہ موجود ہے۔