منگل‬‮ ، 30 ستمبر‬‮ 2025 

قندیل بلوچ کاقتل،مفتی عبدالقوی بھی زِد میں آگئے،بڑا قدم اُٹھالیاگیا

datetime 16  جولائی  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوزڈیسک)قندیل بلوچ کاقتل،مفتی عبدالقوی پھنس گئے،تفصیلات کے مطابق متنازعہ ماڈل قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق رکن مفتی عبدالقوی کو بھی ایف آئی آر میں نامزدکردیاگیاہے حال ہی میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ قندیل بلوچ کی سیلفیز اور ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد مفتی عبد القوی کو رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔کچھ روز قبل قندیل بلوچ کی دو شادیوں کی خبریں بھی سامنے آئیں تھیں۔مفتی عبدالقوی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قندیل بلوچ کو معاف کردیا تھا اور اب ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ریجنل پولیس افسر ملتان کے مطابق قندیل بلوچ گذشتہ ایک ہفتے سے ملتان کے علاقے گرین ٹاؤن، مظفرآباد میں رہائش پزیر تھیں، جہاں ان کے بھائی وسیم نے انہیں مبینہ طور پر گلا دبا کر قتل کیا، تاہم ان کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود نہیں تھے۔پولیس کے مطابق قندیل بلوچ کا بھائی ان کی تصاویر اور ویڈیوز کی وجہ سے ناراض تھا، جو واقعے کے بعد سے فرار ہے جس کی تلاش کے لیے پولیس ٹیم ڈیرہ غازی خان روانہ ہوگئی ۔ ذرائع کے مطابق قندیل بلوچ چاند رات سے دو روز قبل ہی اپنے آبائی علاقے آئی تھیں۔قندیل بلوچ نے قتل کی دھمکیوں کے حوالے سے پولیس کو بھی آگاہ کیا تھا۔آر پی اور ملتان سلطان اعظم تیموری نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ قندیل کی موت دم گھٹنے سے ہوئی اور انہیں گلا دبا کر ہلاک کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم ڈیرہ غازی خان میں موبائل فونز کی دکان چلاتا ہے اور گذشتہ شب ہی اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان آیا تھا۔تاحال اس قتل کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے تاہم سلطان اعظم تیموری کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ کی مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر سامنے آنے کے بعد ڈیرہ غازی خان میں ملزم وسیم کو لوگ طعنے دیتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ملزم اس واقعے کے بعد سے مفرور ہے اور اسے تلاش کیا جا رہا ہے۔۔ آئی جی پنجاب نے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ۔ اس سے قبل پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ نے وزارت داخلہ، وفاقی تحقیقاتی ادارے اور اسلام آباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کے نام لکھے گئے ایک خط میں سکیورٹی تحفظ فراہم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی بھی درخواست کی تھی، جنہوں نے ان کی شناختی دستاویزات سوشل میڈیا کے ذریعے عام کردیں۔قندیل کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں ان کے موبائل فون نمبر پر دھمکی آمیز فون کالز آرہی ہیں جبکہ ان کے گھر پر بھی کسی قسم کے کوئی سیکیورٹی انتظامات نہیں ہیں۔تین روز قبل قندیل بلوچ نے کوٹ ادو کے رہائشی عاشق حسین نامی شخص سے شادی کا اعتراف کیا تھا۔گفتگو میں قندیل بلوچ نے اعتراف کیا کہ ان کی عاشق حسین سے شادی ہوئی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔کوٹ ادو کے علاقے شیخ عمر کے رہائشی عاشق حسین نے دعوی کیا تھا کہ ان کی 22فروری 2008ء کو فوزیہ عظیم (قندیل بلوچ)سے شادی ہوئی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔عاشق حسین نے دعویٰ کیا تھا کہ قندیل پڑھائی کے لیے کالج میں داخلہ نہ کروانے اور رہائش کے لیے کوٹھی نہ لے کر دینے پر انھیں چھوڑ کر پہلے ڈیرہ غازی خان کے دارالامان اور بعدازاں دارالامان ملتان چلی گئی تھیں۔ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ملتان کے دارالامان میں رہائش کے دوران قندیل بلوچ کا 11 ماہ کا بیٹا مشال بھی ان کے ساتھ تھا جسے 4 جون 2009 کو عدالت میں بیان دے کر انھوں نے شوہر عاشق حسین کے حوالے کردیا۔اس سے قبل قندیل بلوچ کے ایک سابق شوہر بھی منظرِعام پر آئے تھے۔پشاور کے رہائشی شاہد بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ جولائی 2003ء میں انہوں نے قندیل بلوچ سے کورٹ میرج کی تھی، لیکن ان کے خاندان والوں نے انہیں قبول نہیں کیا تھا، بعدازاں انھوں نے قندیل بلوچ کو طلاق دی تھی۔قندیل بلوچ گذشتہ کافی عرصے سے میڈیا کی خبروں میں اِن تھیں، گذشتہ دنوں مفتی عبدالقوی کے ساتھ ان کی سیلفیز اور ویڈیوز منظر عام پر آنے کے بعد مفتی صاحب کو رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اس سے قبل قندیل بلوچ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی شادی کی پیشکش کی تھی۔دوسری جانب قندیل بلوچ کے قتل کے بعد مفتی عبدالقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں قندیل بلوچ کے قتل پر بہت افسوس ہے، ان کے دل میں قندیل کے لئے کوئی کدورت نہیں ، چند روز قبل قندیل بلوچ نے ان سے معافی مانگی تھی جس کے بعد انہوں نے ماڈل کو معاف کردیا ہے۔ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے۔واضح رہے کہ رمضان المبارک کے دوران قندیل بلوچ نے مفتی عبادلقوی کے ہمراہ چند تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھیں جس کے بعد مفتی عبدالقوی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور رویت یلال کمیٹی سے ان کی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی۔



کالم



سات مئی


امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق…

مئی 2025ء

بھارت نے 26فروری2019ء کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ…

1984ء

یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…