لاہور….. آج کے تیز رفتار دور میں ہم صبح شام 146ڈیڈ لائن145 کے الفاظ سنتے ہیں اور ہر کوئی انہیں ادا کرتے ہوئے ادھر سے ادھر بھاگتا نظر آتا ہے۔
اگرچہ آج ہم ڈیڈلائن سے مراد کسی کام کو کرنے کیلئے دی گئی آخری تاریخ یا آخری وقت لیتے ہیں لیکن اسے ڈیڈلائن (موت کی لکیر ) کہنے کی کیا ضرورت ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک دور میں یہ الفاظ واقعی موت کی لکیر کیلئے استعمال کئے جاتے تھے۔
آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل امریکی خانہ جنگی کے دوران قیدیوں کے کیمپ کے گرد ایک لکیر کھینچی گئی تھی اور قیدیوں پر واضح کیا گیا تھا کہ یہ موت کی لکیر ہے کیونکہ اسے پار کرنے والے کے متعلق سمجھا جائے گا کہ وہ فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے موقع پر ہی گولی مار دی جائیگی۔
بعد ازاں ڈیڈلائن کا استعمال اس معنی میں بھی کیا گیا کہ اگر ایک کالا شخص گوری عورت سے شادی کر لے اور پھر ان کے بچے بھی گوروں سے شادیاں کریں تو کتنی نسلوں بعد بچے مکمل طور پر گورے ہو جائیں گے، یعنی کتنی نسلوں بعد کالی نسل ختم ہو جائے گی اور صرف گوری باقی رہ جائیگی، البتہ یہ معنی زیادہ مقبول نہ ہوا اور آج تک ان الفاظ کا استعمال146 دیئے گئے وقت کی آخری حد145 کے معنی میں ہی ہوتا ہے۔