اگر کرکٹ ورلڈکپ میں شریک ٹاپ آٹھ ٹیموں میں سے کسی ایک کا ذکر کیا جائے جو پہلے راﺅنڈ میں ہی شرمناک اندازسے باہر ہوسکتی ہے یا ٹائٹل اٹھاسکتی ہے تو وہ یقیناً پاکستان ہوگا۔
یہ باصلاحیت مگر ناقابل پیشگوئی ٹیم فاسٹ باﺅلرز کے انجریز، میچ وننگ اسپنر سعید اجمل کی معطل اور قیادت کے معاملے پر مصباح الحق اور شاہد آفریدی کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔
صف اول کے باﺅلر عمر گل گھٹنے کی انجری سے صحت یاب نہ ہونے کے باعث پندرہ رکنی اسکواڈ کا حصہ نہیں بن سکے جبکہ نئی گیند کے ایک اور اچھے باﺅلر جنید خان کو آخری لمحات میں دستبردار ہونا پڑا۔
وارم اپ میچز اور نیوزی لینڈ کے خلاف دونوں ون ڈیز میں شکست کے بعد مصباح کی ٹیم کے لیے آسٹریلیا میں 23 سال قبل پاکستان کی جانب سے واحد ورلڈکپ جیتنے والے عمران خان کے دستے جیسی کارکردگی کا مظاہرہ بہت مشکل بنا دیا ہے۔
چیف سلیکٹر اور 1992 کی ٹیم کے ایک اہم رکن معین خان کے مطابق ” تمام تر مسائل کے باوجود یہ ٹیم شیر جیسا حوصلہ رکھتی ہے”۔
انہوں نے کہا کہ ” اگر اس ٹیم نے اپنی صلاحیت کے مطابق کھیلا تو یہ دنیا کو حیران بھی کرسکتی ہے”۔
کپتان مصباح الحق بھی بہترین نتائج کے لیے پراعتماد ہیں ” ورلڈکپ کا فارمیٹ ٹیموں کو متعدد مواقعے فراہم کرتا ہے”۔
ورلڈکپ کے بعد ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہنے کے لیے تیار مصباح کے مطابق ” اگر میں اپنے ایک روزہ کیرئیر کا اختتام ٹرافی کے ساتھ کرتا ہوں تو یہ کیک پر سجاوٹ جیسا ہوگا”۔
مگر مصباح جانتے ہیں کہ ان کی باﺅلنگ سعید اجمل کو یاد کرے گی جو کہ اکیلے ہی پاکستان کو میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم گزشتہ سال ستمبر میں انہیں غیرقانونی باﺅلنگ ایکشن پر معطل کردیا گیا تھا، جبکہ آل راﺅنڈر محمد حفیظ بھی اس پابندی کی زد میں آئے۔
دراز قامت باﺅلر محمد عرفان کو ایکس فیکٹر سمجھا جارہا ہے ورنہ پاکستانی باﺅلنگ اٹیک کافی ناتجربہ کار ہے۔
ہیڈ کوچ وقار یونس کہتے ہیں ” میرے لیے تو ہماری ٹیم کا ایکس فیکٹر عفان ہے، اپنے قد کے ساتھ میرے خیال میں وہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے”۔
سعید اجمل کی غیرحاضری کے باعث لیگ اسپنر یاسر شاہ آل راﺅنڈر شاہد آفریدی کے ہمراہ اسپن کے شعبے کو سنبھالیں گے۔
آفریدی بھی ورلڈکپ کے بعد ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں اور وہ اختتامی اوورز میں عمر اکمل، مصباح اور صہیب مقصود کے ہمراہ ایک بلے باز کی حیثیت سے بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کا ٹاپ آرڈر تسلسل سے کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے خاص طور پر اوپنرز کی جانب سے اچھے آغاز کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
یہ توقع کی جارہی ہے کہ تجربہ کار یونس خان اور مصباح بیٹنگ کو استحکام دیں گے مگر اس میں اہم مسئلہ ان دونوں کی جانب سے بہت زیادہ گیندیں ڈاٹ کھیلنا ہے۔
پاکستان ورلڈکپ میں شریک ٹاپ ٹین ٹیموں میں سب سے بدترین رن ریٹ کا حامل اسکواڈ ہے اور اس کے لیے اپنے اولین دو میں سے ایک میچ جیتنا لازمی ہے جو کہ روایتی حریف ہندوستان اور ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے جائیں گے تاکہ کوارٹر فائنل میں جگہ پکی کی جاسکے۔
اگر ایسا نہ ہوسکا تو اگلے مرحلے میں رسائی کا انحصار پاکستان کے گروپ بی کے آخری میچ پر ہوگا جو کہ آئرلینڈ کی خطرناک ٹیم کے خلاف ہوگا اور یہ وہی ٹیم ہے جس نے گرین شرٹس کو ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے 2007 کے ورلڈکپ کے پہلے مرحلے میں ہی ایونٹ سے باہر کردیا تھا۔