واشنگٹن(نیوز ڈیسک) امریکی انتظامیہ کے انٹیلی جنس افسران کادعویٰ ہےکہ القاعدہ نے پاکستان، شام، ترکی اور افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور ان کے لیے وسائل مختص کرنے کی منظوری دیدی۔ امریکی ادارے نیشنل انٹیلی جنس کےڈائریکٹر کاکہنا ہےکہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث پاکستان اور افغانستان میں موجود اس دہشت گرد تنظیم کی قیادت پر کاری ضرب لگی لیکن اس کے باوجود القاعدہ سے منسلک دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ منظم ہوتی نظر آرہی ہیں اور 2016میں اہداف کے حصول کیلئے کمر کس رہی ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس میں نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ جیمز کلیپر نے کہاکہ القاعدہ سے منسلک دہشت گرد تنظیمیں،مقامی، علاقائی اور ممکنہ طور پر عالمی مفادات کیلئے بھی مستقل خطرہ بنی ہوئی ہیں، جیساکہ گزشتہ برس فرانسیسی اخبار پر ہونیوالے حملےسے واضح ہے۔ دیگر دہشت گر د تنظیموں نے بھی حملہ آوروں کو بھرتی کیلئے راغب کرنے اور وسائل کے حصول اہلیت حاصل کرلی ہے ۔ انہوں نے کمیٹی ارکان کو مستقبل میں دہشت گرد حملو ں کے حوالے سے متنبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ واشنگٹن کی جانب سے عالمی سطح پر عسکری ، سیاسی اور معاشی سطح پر ماضی اور حال میں جاری سرگرمیوں کے باعث یقینی طور پر کہا جاسکتا ہےکہ امریکا ان انتہا پسندوں کا اہم ترین دشمن ہوسکتا ہے ۔ جنگ رپورٹر واجد علی سید کے مطابق انتہا پسند ممکنہ طور پر دنیا کے دیگر ملکوں میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی مستقل منصوبہ بندی کرتے رہیں گے۔ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کو بڑی حد تک نقصان پہنچایا جاچکا ہے ، لیکن پھر بھی یہ دہشت گرد تنظیم امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے کی خواہش رکھتی ہے ۔ کلیپر کا کہنا تھاکہ داعش کی جانب سے گزشتہ برس جنوبی ایشیا کیلئے خراساں کے نام سے تنظیم کی علاقائی شاخ کے قیام کا اعلان دراصل تحریک طالبان اور افغان طالبان کے سابق ارکان کو اپنی تنظیم میں ضم کرنے کی کوشش تھی۔ تاہم 2015میں داعش کی خراساں شاخ کے تیزی سے پنپنے کے باوجود 2016میں یہ دہشت گرد تنظیم افغانستان کے استحکام اور امریکی و مغربی مفادات کیلئے ایک کم درجے کا خطرہ ہوگی۔