لندن (نیوزڈیسک)منی لانڈرنگ کے حوالے سے تشویش کے باوجود پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جن کے باشندے برطانیہ کی پیش کردہ ”گولڈن ویزا“سکیم سے مستفید ہوئے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق62 پاکستانیوں نے برطانیہ کا ٹائر ون انویسٹرز ویزا (گولڈن ویزا) حاصل کرنے کے لئے ان میں سے ہر ایک نے20 لاکھ پاﺅنڈ اسٹرلنگ (30 کروڑ 10 لاکھ روپے) کی2008ء سے2015ء کے درمیان سرمایہ کاری کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل برطانیہ کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق برطانوی حکومت ایسے سرمایہ کاروں کے نام ظاہر نہیں کرتی لیکن ایسے ممالک کے باشندوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ 20 لاکھ پاو¿نڈ سٹرلنگ سرمایہ کاری کے عوض غیرملکی سرمایہ کار کو گولڈن ویزا مل جاتا ہے اور 5 سال بعد اسے مستقل رہائش دے دی جاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ حالیہ اندازے کے مطابق یہ سکیم بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کے خطرے کی حیثیت رکھتی ہے جس سے کرپشن کے ذریعے ا?مدنی برطانیہ لائی جاتی ہے۔ اس کے تجزیئے کے مطابق2008ئ میں سکیم شروع کئے جانے کے بعد سے اب تک3048 گولڈن ویزے جاری کئے گئے، ان میں سے60 فیصد ویزےچینی اور روسی باشندوں کو جاری ہوئے، چینی باشندوں کو 1126 اور روسیوں کو ایسے706 ویزے جاری ہوئے۔ 60 ویزوں کے ساتھ بھارت کا ان ممالک کی فہرست میں پانچواں نمبرہے، خود برطانوی حکومت کے اپنے اندا زے کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ سسٹم میں نمایاں خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں۔ 97 فیصد گولڈن ویزا انویسٹرز اس دور میں ا?ئے جب حکام کو ان پر ”اندھا اعتماد“ تھا۔ برطانیہ کے ذریعے بیرون ممالک کرپشن کی کمائی ”دھونے“نے کلیدی شراکت دار ممالک میں سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔ ٹرانسپیرنسی نے برطانوی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بین الاقوامی تعاون کے طریقہ کار میں بہتری لائے تاکہ کرپشن کے ذریعے بنائے گئے اثاثوں کو بازیاب کرایا جا سکے۔