جمعہ‬‮ ، 08 اگست‬‮ 2025 

شام میں عملی طور پر ایک ہفتے میں جنگ بندی مشکل ہے، بشار الاسد

datetime 16  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دمشق(نیوز ڈیسک)بشار الاسد نے کہا ہے کہعملی طور پر ایک ہفتے میں جنگ بندی مشکل ہے، جنگ بندی کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے،عالمی طاقتوں کی جانب سے جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے منصوبے مشکوک ہیں ، منصوبوں پر عملدرآمد عالمی برادری کیلئے مشکل ہوگا ۔غیر ملکی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد نے عالمی طاقتوں کی جانب سے شام میں جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے منصوبوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ بندی کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے۔شامی صدر بشار الاسد نے کہا کہ اس قسم کی جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام گروہ ہتھیار ڈال دیں گے۔بشار الاسد کا کہنا تھا کہ ’اب تک تو ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر جنگ بندی چاہتے ہیں۔ لیکن ایک ہفتے کے اندر کون تمام مطالبات اور شرائط کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بشار الاسد کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کون بات کرے گا؟ اگر دہشت گرد جنگ بندی کو مسترد کر دیتے ہیں تو انھیں کون روکے گا؟ عملی طور پر یہ مشکل ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کوئی ہتھیاروں کا استعمال روک دے۔ اس کا مطلب دہشت گردوں کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے سے روکنا ہونا چاہیے۔ ہتھیاروں، آلات، اور شدت پسندوں کی ترسیل یا پوزیشن مستحکم کرنے کی ممانعت ضروری ہے۔بشار الاسد نے جنگ بندی کے اس منصوبے کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ شام میں باغیوں کو شکست دینے میں کچھ وقت لگے گا کیونکہ انھیں بیرونی مدد حاصل ہے لیکن وہ پورے ملک پر اپنا کنٹرول بحال کر کے رہیں گے۔صدر اسد نے کہا کہ وہ شام میں امن بحال کرنے کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے باوجود وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں سلسلہ وار حملوں سے جنگ بندی کے امکانات پر ’گہرے سائے‘ چھا گئے ہیں۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس خطے میں سکولوں اور ہسپتالوں پر میزائلوں کے حملوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔فرانس کا کہنا ہے وہ سخت الفاظ میں ایم ایس ایف کے کلینک پر بمباری کی مذمت کرتا ہے جبکہ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ڑاں مارک ایرالٹ نے کہا ہے کہ ایسے حملے ’جنگی جرائم ہیں۔ترکی کی وزارتِ خارجہ نے روس کو ان حملوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ روس کی جانب سے تاحال اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔شام کے تنازع کی وجہ سے ترکی اور روس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ روس شام میں باغیوں کے خلاف شامی حکومت کی عسکری کارروائی کی حمایت کر رہا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان عناصر کو نشانہ بنا رہا ہے جو ’دہشت گرد ہیں۔‘دریں اثنا شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ کرد ملیشیا نے شمالی شام میں تل رفعت نامی قصبے سے باغیوں کا قبضہ ختم کروا دیا ہے۔وائی پی جی سے تعلق رکھنے والے کرد فوجیوں نے یہ کامیابی اپنی پوزیشنوں پر ترکی کی جانب سیگذشتہ تین دن سے جاری گولہ باری کے باوجود حاصل کی۔ترکی اس ملیشیا کو اپنے ملک میں سرگرم کالعدم کرد جماعت پی کے کے کا ساتھی سمجھتا ہے۔ترک وزیرِ اعظم احمد داؤد اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ اگر کرد ملیشیا نے تل رفعت کے بعد ترک سرحد کے ساتھ واقع شامی علاقے اعزاز پر قبضے کی کوشش کی تو انھیں ’سخت ترین ردعمل‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انٹرلاکن میں ایک دن


ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…