پی آئی اے کے چار المیے ہیں۔
پہلا المیہ ریاست ہے‘ ہمیں بہرحال یہ ماننا ہو گا ہماری ریاست میں اہلیت بتدریج کم ہو رہی ہے‘ ریاستی نظام ڈھیلا پڑ چکا ہے‘ آپ کسی محکمے‘ کسی دفتر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں طوائف الملوکی ملے گی‘ سرکاری ملازم اول دفتر نہیں آتے‘ اگر آ جائیں تو لیٹ آتے ہیں‘ سارا دن چائے چلتی ہے‘ چائے ختم ہوتی ہے تو کھانے اور نماز کے وقفے شروع ہو جاتے ہیں‘ یہ ختم ہوتے ہیں تو چھٹی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں‘ صاحب لوگ سارا سارا دن میٹنگ کرتے ہیں‘ آپ کسی دفتر میں فون کر لیں‘ آپ یہ فقرہ ضرور سنیں گے ”صاحب میٹنگ میں ہیں“۔ آپ کسی کے دفتر چلے جائیں‘ چپڑاسی ”صاحب میٹنگ میں ہیں“ کہہ کر آپ کا راستہ ضرور روکے گا‘ آپ عزت اور آبرو کے ساتھ کسی دفتر سے کوئی کاغذ لے کر دکھا دیں‘ میں آپ کو دونوں ہاتھوں سے سلام پیش کروں گا‘ سرکاری ملازمین مہنگائی اور آمدنی میں عدم توازن کی وجہ سے کرپٹ بھی ہو چکے ہیں‘ یہ پیسے کے بغیر کام نہیں کرتے اور اگر کام کرنا پڑ جائے تو یہ اس کو اتنا طویل کر دیتے ہیں کہ سائل سڑکوں پر رل جاتا ہے‘ صلاحیت اور مہارت کا بحران بھی ہے‘ چودھری نثار پچھلے دنوں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ ہماری کسی وزارت کا کوئی سیکرٹری ریٹائر ہو جائے تو ہمیں نیا سیکرٹری نہیں ملتا‘ آپ سرکاری محکموں میں کمپیوٹر جاننے والے لوگوں کی تعداد بھی معلوم کر لیجئے‘ آپ کو آدھے سے زائد لوگ کمپیوٹر سے نابلد ملیں گے‘ آن جاب ٹریننگ کا تصور بھی موجود نہیں‘ پچھلے دنوں گریڈ 21 سے گریڈ 22 کی پروموشنز ہوئیں‘ پورے صوبہ سندھ کا صرف ایک ایڈیشنل سیکرٹری پروموٹ ہوا‘ بلوچستان صوبائی بجٹ بنوانے کےلئے سندھ اور پنجاب سے ٹیم ادھار لیتا ہے‘ خیبر پختونخواہ میں آئی جی لیول کا کوئی افسر موجود نہیں‘ ناصر درانی کا تعلق پنجاب سے ہے اور عمران خان نے انہیں بڑی مشکل سے پشاور میں رکھا ہوا ہے‘ صلاحیت کی حالت یہ ہے‘ ہمارے خفیہ ادارے وارداتوں سے پہلے دہشت گردوں اور نشانہ بننے والے مقامات کا اندازہ لگا لیتے ہیں‘ وارننگز جاری ہو جاتی ہیں لیکن فائل دس دس دن تک ایک میز سے دوسری میز تک نہیں پہنچتی اور دہشت گرد اس دوران باچا خان یونیورسٹی اور آرمی پبلک سکول کو خون میں نہلا دیتے ہیں اور ریاست آج تک 24 خفیہ اور ظاہری محکموں میں کوآرڈی نیشن پیدا نہیں کر سکی چنانچہ وہ ریاست جس سے پولیس‘ محکمہ مال‘ سی ڈی اے‘ ایل ڈی اے‘ سکول اور ہسپتال نہیں چل رہے‘ جس سے سفارت خانے نہیں چل رہے‘ جو پچھلے 17برسوں سے ملک میں مردم شماری نہیں کرا سکی اور جو 2016ءتک ملک کے تمام شہریوں کو شناختی کارڈ جاری نہیں کر سکی وہ ائیر لائین کیسے چلائے گی؟ وہ ریلوے اور سٹیل مل جیسے اداروں کو منافع بخش کیسے بنائے گی؟ دنیا میں 1980ءمیں کاروبار اور ریاست الگ ہوگئے تھے‘ دنیا میں اسی کی دہائی تک زیادہ تر ادارے ریاستوں کے ہاتھ میں ہوتے تھے لیکن پھر 35 برس پہلے دنیا بدل گئی‘ ریاست پالیسی سازی اور ٹیکس کولیکشن تک محدود ہو گئی اور کاروبار‘ کاروباری اداروں کے ہاتھ میں چلا گیا‘ دنیا میں اب جدید اور امیر ترین ریاستوں کے پاس بھی تعلیم‘ صحت‘ انصاف‘ پولیس‘ امیگریشن‘ فوج اور سفارتی مشنز کے علاوہ کوئی کام نہیں رہا‘ تعلیم اور صحت بھی تیزی سے پرائیویٹائز ہو رہی ہے‘ یہ دونوں شعبے بھی 2025ءتک مکمل طور پر نجی ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور ریاست دفاع‘ انصاف اور خارجہ امور تک محدود ہو جائے گی لیکن ہم آج بھی ریاست سے توقع کرتے ہیں‘ یہ ریل گاڑی بھی چلائے‘ ہوٹل اور ریسٹ ہاﺅسز کا کاروبار بھی سنبھالے‘ سٹیل مل کو بھی منافع بخش بنائے اور جہاز بھی اڑائے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ جی نہیں! جو کام آج امریکا‘ یورپ‘ جاپان اور چین نہیں کر پا رہے‘ جس سے دنیا کی سپر پاورز بھاگ گئی ہیں‘ وہ ہم کیسے کریں گے؟۔
پی آئی اے کا دوسرا المیہ حکومتیں ہیں‘ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے حکومتیں‘ پارلیمنٹ‘ اسمبلیاں اور عوامی نمائندے قانون ساز کم اور نوکریاں دینے والے ادارے زیادہ ہیں‘ عوام ہر ایم پی اے‘ ہر ایم این اے سے نوکری کی توقع کرتے ہیں‘ ملک کے ہر حکمران سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے‘ یہ لاکھوں بے ہنر‘ کم تعلیم یافتہ اور نااہل جوانوں کو نوکریاں فراہم کرے گا‘ ہماری حکومتیں پچھلے 68 برسوں سے ایمپلائمنٹ بیورو کا کام کر رہی ہیں‘ عوامی نمائندوں کے ہر تگڑے گروپ کی کوشش ہوتی ہے ان کا بچہ سرکاری ملازمت کرے‘ نوکری پکی بھی ہو اور ایسی بھی جس میں کام کم اور آمدنی زیادہ ہو‘ حکومت کے پاس اس کار خیر کےلئے صرف چند ادارے بچے ہیں‘ سٹیل مل‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ محکمہ تعلیم‘ محکمہ صحت‘ پولیس اور محکمہ مال چنانچہ حکومتیں چھ دہائیوں سے ان محکموں میں دھڑا دھڑ سفارشی بھرتی کر رہی ہیں‘ یہ سفارشی بھرتیاں ان اداروں کو لے کر بیٹھ گئی ہیں‘ پی آئی اے اس کلچر کی بدترین مثال ہے‘ آپ ٹیکنیکل سٹاف سے لے کر کریو تک تحقیق کر لیں‘ آپ کو نااہلیت کا طوفان بدتمیزی ملے گا‘ حکومتوں کی اس غلط روش کی وجہ سے پی آئی اے 320 ارب کی مقروض بھی ہو چکی ہے اور یہ دنیا کی بدترین ائیر لائنوں میں بھی شمار ہوتی ہے‘ پی آئی اے کا تیسرا المیہ اس کا سٹاف ہے‘ ائیر لائین کا سٹاف سیاسی دھڑے بندیوں کا شکار ہے‘ ملک میں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں‘ پی آئی اے میں اتنی ہی یونینز اور گروپ ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مختلف جماعتوں نے اپنے ادوار میں بھرتی کیا تھا‘ یہ گروپ آہستہ آہستہ ”دھرنا گروپ“ بن چکے ہیں‘ یہ اپنے مطالبات منوانے کےلئے ان جہازوں کے پر بھی کاٹ دیتے ہیں جن سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں‘ آپ جہازوں کے اندر بھی عملے کا رویہ دیکھ لیجئے‘ بین الاقوامی روٹس پر زیادہ تر سفارشی ائیر ہوسٹس کو بھجوایا جاتا ہے‘ یہ ائیر ہوسٹس اس مہربانی کےلئے قربانی بھی دیتی ہیں‘ فضائی عملہ اور پائلٹس دنیا کے مختلف ائیر پورٹس پر سمگلنگ کرتے ہوئے بھی پکڑے جاتے ہیں‘ جہازوں کے پرزے تک کباڑ مارکیٹ میں بیچ دیئے جاتے ہیں‘ جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتی‘ صفائی کا نظام بھی ناقص ہے اور کھانے کا معیار بھی بدتر سے بدتر ہوتا جا رہا ہے‘ سٹاف کی ٹریننگ بھی نہیں کی جاتی اور سٹاف کا ائیر پورٹ اور جہاز میں بھی مسافروں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہوتا‘ مسافر یہ حرکتیں دس بیس سال پہلے تک برداشت کر جاتے تھے لیکن نائین الیون کے بعد دنیا میں ہوائی سفر کے سستے ذرائع بھی پیدا ہوئے اور نئی ائیر لائینز بھی آئیں‘ پاکستان میں بھی ایسی بے شمار بین الاقوامی فلائیٹس دستیاب ہیں جن کا کرایہ بھی کم ہے‘ جو کینسل بھی نہیں ہوتیں اور جن کے جہاز اور عملے کا معیار بھی پی آئی اے سے بہتر ہے چنانچہ پھر مسافروں کو کالے کتے نے کاٹا ہے یہ مہنگا ٹکٹ بھی خریدیں‘ ائیر پورٹ پر بھی خوار ہوں اور جہاز کے اندر بھی ذلیل ہوں‘ یہ مسافر گلف‘ ترکی‘ تھائی لینڈ‘ چین اور سنٹرل ایشیا کی ائیر لائنوں کے ذریعے سفر کیوں نہ کریں؟ اور پی آئی اے کا چوتھا المیہ ہم عوام ہیں‘ ہم ایک ایسے خطے میں رہ رہے ہیں جس میں لوگ ہزاروں سال سے ترقی اور تبدیلی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں“ ہم دنیا میں تبدیلی کو ماننے والے آخری لوگ ہوتے ہیں‘ ہمارے علماءکرام نے ریلوے کے خلاف بھی فتوے دیئے تھے‘ ڈاک کے نظام کے خلاف بھی اور ریڈیو‘ ٹی وی‘ فٹ بال‘ منی آرڈر اور لاﺅڈ سپیکر کو بھی دہائیوں تک حرام رکھا تھا‘ ہم پہلے ان حکومتوں کی مخالفت کرتے رہے جنہوں نے ریلوے‘ سٹیل مل اور پی آئی اے بنانے کا جرم کیا تھا اور ہم اب ان حکومتوں سے لڑ رہے ہیں جو پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہیں‘ مجھے یقین ہے حکومت اگر آج نجکاری کا فیصلہ واپس لے لے تو ہم کل کو ”حکومت ان یونٹوں سے جان کیوں نہیں چھڑاتی“ کے نعرے لگانا شروع کر دیں گے‘ یہ ہمارا نفسیاتی المیہ ہے‘ ہم میں سے ہر شخص پی آئی اے کی خامیوں‘ کمزوریوں اور خرابیوں سے تنگ ہے‘ ہم میں سے ہر شخص ببانگ دہل پوچھتا ہے ”پی آئی اے خسارے اور ائیر بلیو اس سے نوے فیصد کم ملازمین کے ساتھ منافع میں کیوں ہے“ لیکن جب تبدیلی کی بات آتی ہے تو یہی لوگ دوسرے فریق کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ میں اس میں ان لوگوں کو قصور وار نہیں سمجھتا‘ یہ دراصل ہمارے بیمار رویئے ہیں‘ ہم لوگ شروع میں مقتول کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن جوں ہی قاتل کی پھانسی کا وقت آتا ہے تو ہماری ہمدردیاں ”بے چارے قاتل“ کی طرف مڑ جاتی ہیں‘ ہم ہفتہ بھر سینیٹری ورکروں کی جان کو روئیں گے لیکن جب کوڑا اٹھانے کا وقت آئے گا تو ہم کچرا گاڑی کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے‘ ہم دلچسپ لوگ ہیں‘ ہمارے ملک میں جب کوئی شخص مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے لگے تو ہم اس سے لڑ پڑتے ہیں اور وہ جب یہ کام بند کر دیتا ہے تو ہم اس کی پیٹھ پر ”تم کام کیوں نہیں کرتے“ کے کوڑے برسانا شروع کر دیتے ہیں اور ہمارا یہ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے جیسے ادارے چل رہے ہیں اور نہ ہی بک رہے ہیں‘ بس ان کے بوجھ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہم اب حل کی طرف آتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے بیمار یونٹوں کی نجکاری ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے‘ ملک کے تمام لیڈر اس بوجھ سے آزاد ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ لوگ ووٹروں‘ الیکشنوں اور ظالم عوام کے سامنے بے بس ہیں‘ حکومت پی آئی اے سے آزاد ہونا چاہتی ہے لیکن اس میں اعتراف کی جرات نہیں‘یہ کان کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے‘ میری حکومت سے درخواست ہے‘ آپ تسلیم کریں ہم 72 بیمار اداروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے چنانچہ ہم پی آئی اے سمیت ان تمام اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں‘ آپ اس اعلان کے بعد اپوزیشن پارٹیوں سے ملیں‘ قومی اسمبلی میں بحث کرائیں‘ ملازمین سے ملیں‘ ان کے تحفظات سنیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں‘ آپ رات کی خاموشی میں آرڈیننس کیوں جاری کرتے ہیں اور آپ قومی اسمبلی سے افراتفری میں بل کیوں پاس کراتے ہیں‘ آپ یہ کیوں کہتے ہیں‘ ہم صرف 26 فیصد مینجمنٹ شیئرز دے رہے ہیں؟ آپ کھل کر سامنے آئیں‘ آپ ملازمین اور قوم دونوں کو دھوکے میں نہ رکھیں‘ آپ مانیں ہم یہ ادارے نہیں چلا سکتے‘ آپ کی یہ کلیئرٹی آپ‘ قوم اور پی آئی اے تینوں کےلئے نعمت ثابت ہو گی ورنہ دوسری صورت میں یہ بوجھ بھی بڑھتا رہے گا‘ احتجاج بھی اور مسافروں کی تکلیف بھی یہاں تک کہ کوئی کباڑی بھی پی آئی اے کو خریدنے کےلئے تیار نہیں ہوگا چنانچہ آپ آئیں‘ بائیں اور شائیں نہ کریں‘ آپ سیدھا فیصلہ کریں‘ صاف اور شفاف فیصلہ۔
سیدھا اور صاف فیصلہ
8
فروری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں