واشنگٹن (نیوزڈیسک)عراق و افغانستان میں تباہی مچانے کے بعد امریکہ کی ایک اور ملک پر حملے کی تیاریاں،امریکا لیبیا میں سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے خلاف ضرورت پڑنے پر کارروائی کرے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق وائٹ ہاو¿س کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکی عوام کے تحفظ کے لیے یک طرفہ اقدام کی ضرورت پیش آتی ہے تو امریکا اس کے لیے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔انھوں نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے کہ صدر اوباما نے لیبیا میں زمینی دستے بھیجنے کے لیے کوئی فیصلہ کر لیا ہے۔البتہ انھوں نے کہا کہ ”صدر نے لیبیا میں بھی فیصلہ کن اقدام کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔لیبیا میں داعش کے جنگجوو¿ں نے خانہ جنگی اور دو متوازی حکومتوں کے درمیان باہمی آویزش سے فائدہ اٹھایا ہے اور وہ اپنے پاو¿ں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔انھوں نے حالیہ مہینوں کے دوران ملک کی تیل کی تنصیبات پر تباہ کن حملے کیے ہیں اور انھوں نے سابق مقتول صدر معمر قذافی کے آبائی شہر سرت پر گذشتہ سال سے قبضہ کررکھا ہے۔لیبیا کی دونوں حکومتوں کے درمیان ملک میں ایک متحدہ قومی حکومت کے قیام کے لیے سمجھوتا طے پاچکا ہے اور اب اس کی تشکیل کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔جوش ایرنسٹ کا کہنا تھا کہ امریکا لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت کی قومی سلامتی کے لیے مختلف اقدامات کے ضمن میں مدد وحمایت کرے گا۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس امداد کی نوعیت کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا،مگر ہم قومی اتحاد کی حکومت کی صلاحیت کار بڑھانے کے لیے جو کچھ بھی کریں گے تو اس سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا۔واضح رہے کہ فرانس نے حال ہی میں لیبیا میں فوجی مداخلت کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔فرانسیسی وزیر خارجہ لوراں فابیئس نے منگل کے روز ایک بیان میں واضح کیا کہ لیبیا میں فوجی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انھوں نے ان اطلاعات کو بھی مسترد کردیا کہ ان کا ملک لیبیا میں سخت گیر جنگجو گروپ دولتِ اسلامیہ عراق وشام کےخلاف فوجی کارروائی کرنے جارہا ہے۔