کراچی(نیوز ڈیسک) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کی قیمت میں مجموعی طورپراستحکام رہا تھا۔ کاروباری حجم کم رہا ٹیکسٹائل واسپننگ ملزنے محتاط خریداری کی اور رسد بھی محدودرہی۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ میں فی من 50روپے کم کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 5400 روپے پربند کیا۔ صوبہ سندھ وپنجاب میں روئی کی قیمت کوالٹی کے حساب سے فی من 4700تا5700روپے رہی۔ اسی طرح پھٹی کی قیمت بھی 2100تا3100روپے رہی۔ کراچی کاٹن بروکرزفورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی منفی عوامل اورمقامی مارکیٹ میں کاٹن یارن کی قیمت میں مندی کے باعث کپاس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہورہا۔کاٹن مارکیٹ، روئی اور سوتی دھاگے کے مقامی کاروبار اور برآمدات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کپاس پاکستان کی زراعت اورمعیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے ملک کی کل برآمدات کا 60تا65فیصدحصہ خام کپاس ٹیکسٹائل مصنوعات، سوتی دھاگا، گارمنٹ وغیرہ کی صورت میں برآمد کیا جاتا ہے زراعت کا دارومداربھی زیادہ ترکپاس کی فصل پرمنحصر ہے اورکروڑوں لوگوں کا روزگاربھی اس سے وابستہ ہے اسی لیے میڈیا میں کپاس کے متعلق معلومات سے کروڑوں لوگ مستفید ہوتے ہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے میڈیا میں کپاس کووہ اہمیت نہیںدی جارہی جو اس کا مقام ہے جبکہ میڈیا کیلیے اس شعبے میں وافرگنجائش موجود ہے۔کپاس سے منسلک کئی شعبے کے لوگ اس میں دلچسپی لیں گے جس میں لاکھوں کاشتکار، ٹیکسٹائل واسپننگ ملزسے وابستہ لاکھوں لوگ آڑہت والے، آئل ملز والے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں، ان لاکھوں کومعلومات فراہم کرنا بہت مفید اورموثر ثابت ہوگا۔ کپاس کی مختلف پیداوارسے منسلک دیگرلاکھوں لوگوں کوجن میں بھینس کے باڑے والے کیونکہ بھینسوں کو زیادہ دودھ کیلئے کھل کھلائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں گھی کے کارخانے داربھی اس میں دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ صابن بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح اگرکروڑوں کہا جائے توبھی بیجانہ ہوگا کہ لوگ کپاس کی خبروں میں بھی پوری طرح دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ اس کی قیمت میں اتارچڑھاو¿ کئی چیزوں کومتاثر کرتے ہیں۔اگرسرسری طورپرجائزہ لیا جائے توابتدائی صورتحال میں روئی (کپاس) کاکاروبار450ارب روپے پرمحیط ہے اگراس میں دیگرشعبہ جات کوشامل کیا جائے تویہ کاروبار1600ارب امریکی ڈالرسے بھی تجاوزکرجاتا ہے۔ اس پس منظرمیں آپ سوچیں کہ ملک کی مجموعی معیشت پرکپاس کی پیداوارکاکتنا انحصارہے اوریہ کتنا بڑا اوروسیع ترشعبہ ہے اوراس طرح لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ہمارے قومی اوربین الاقوامی پرنٹ میڈیا اورٹی وی چینلزکے ذریعے ہمارے ملک کے کروڑوں لوگ کپاس کے متعلق خبروں اورتبصرے کے باعث استفادہ حاصل کرسکتے ہیں پھرکیوں نہ کپاس کی معلومات کے متعلق کے عنوان سے ایک پروگرام پیش کیا جائے میں گزشتہ 30تا35سالوں سے ”کاٹن“ کپاس کے کاروبار کے متعلق رپورٹ، جائزے اورتبصرے مرتب کررہا ہوں کیونکہ یہ میرا کاروبار ہے اورمیرے روزی روزگارکاذریعہ بھی کپاس سے ہی وابستہ ہے۔کاٹن سے متعلق میری رپورٹس، تبصرے اورجائزے ملک بھر کے بڑے اخبارات میں مسلسل شائع ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہفتہ وار تبصرے وغیرہ نیوزایجنسیزبھی شائع کرتی ہیں اوربین الاقوامی نیوزایجنسی رائٹر بھی میرے تبصرے اورتجزیے باقاعدہ دنیا کے 144ممالک میں شائع کرواتی ہے۔ اس سال کپاس کی فصل میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے اورآئندہ سال بھی اس پرمنفی اثرات مرتب ہونے کااندیشہ ہے اس لیے اس موضوع کواجاگرکرنا انتہائی ضروری ہے لہٰذا اس پرجنگی بنیادوں پراقدامات کی اشدضرورت ہے