واشنگٹن(نیوزڈیسک)ایک اور جنگ۔ترکی اور روس آمنے سامنے ۔میدان ایک اور ملک شام کا،ایک امریکی ادارے نے امکان ظاہر کیا ہے کہ رواں سال 2016ءمیں ترکی واشنگٹن کی معاونت سے شمالی شام میں دولت اسلامی”داعش“ کے جنگجو اور کردوں کی توسیع پسندی روکنے کے لیے اپنی فوجیں شام میں اتارنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق امریکی گلوبل انٹیلی جنس فاو¿نڈیشن اسٹریٹجک فارکاسٹنگ(سٹارٹ فار) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ترکی شام میں اپنی فوج اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انقرہ کے اس اقدام پر امریکا بھی اس کی ہر ممکن معاونت کرے گا۔تجزیاتی نوعیت کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران شام کے تنازع کے حوالے سے ترکی ایران کے مقابلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماسکو اور انقرہ کے درمیان جاری سرد جنگ میں بھی کمی کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔اسٹارٹ فار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016ءمیں ترکی اپنی حدود سے آگے نکل کر شام میں کارروائی کرے گا۔ ترکی شمالی شام میں داعش کی توسیع پسندی روکتے ہوئے ان علاقوں میں کردوں کی کنٹرول کو وسعت دینے کے لیے موثر کوششیں کرے گا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امکان ہے کہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن رواں جنوری میں انقرہ کے دورے پرآئیں گے جہاں وہ صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیراعظم احمد داو¿د اوگلو سے بھی ملاقات کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں شام میں ترک فوج کی ممکنہ مداخلت پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ رپورٹ میں مبصرین کے بیانات کے حوالے سے کہا گیا ہے جوبائیڈن کا دورہ ترک ”خطے میں انقرہ کے کردار کی واپسی“ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کڑی ہے۔ واشنگٹن شام میں ترکی کی فوجی مداخلت کی راہ میں مزاحم ہونے کے بجائے اس میں انقرہ کی بھرپور مدد بھی کرے گا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ترکی کو شام میں مداخلت کے لیے گرین سگلنل ملنے کا قوی امکان ہے مگر اس باب میں روس سب سے بڑھ کر مخالفت کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ روس شام میں ترکی کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کا بھی استعمال کرے۔