اسلام آباد(نیوزڈیسک)بھارت میں تازہ ترین مردم شماری سے انکشاف ہوا ہے کہ تین لاکھ 72 ہزار بھکاریوں میں سے 21 فیصد سینئر سیکنڈری اسکول پاس ہیں، تین ہزار سے زائد کے پاس پروفیشنل ڈپلوما ہے اور 410 کے پاس ماسٹرز ڈگری اور انجینئرنگ کی ڈگریاں ہیں۔بھارت نے 2011ءکی مردم شماری پر مبنی ’نان ورکرز بائی مین ایکٹیویٹی، ایجوکیشن لیول اینڈ سیکس‘ کے حوالے سے پچھلے دنوں اعدادو شمار جاری کئے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق ملک میں بھکاریوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 72 ہزار ہے۔ ان میں21 فیصدیعنی تقریباً 78 ہزار بھکاری سینئر سیکنڈری اسکول امتحان یا بارہویں درجہ پاس ہیں جب کہ تقریباً تین ہزار کے پاس تکنیکی ڈپلوما یا سرٹیفکیٹ ہے اس کے علاوہ 410 بھکاری ایسے بھی ہیں جن کے پاس انجینئرنگ یا پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں ہیں۔ ان 410 پوسٹ گریجویٹ بھکاریوں میں 137خواتین بھی شامل ہیں۔82.91 فیصد کے ساتھ صوبہ مہاراشٹر ایسے ”کوالیفائیڈ“ بھکاریوں کے معاملے میں سر فہرست ہے۔ تاہم آسام کو چھوڑ کر شمال مشرقی بھارت کے دیگر چھ صوبوں میں اتنی زیادہ تعلیمی صلاحیت رکھنے والا کوئی بھکاری نہیں پایا جاتا ہے۔جن پانچ صوبوں میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والے بھکاریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ان میں سے تین یعنی آندھرا پردیش، کرناٹک اور تمل ناڈو جنوبی صوبے ہیں، جہاں پوسٹ گریجویٹ بھکاریوں کی تعداد بالترتیب 55، 44 اور 41 ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے آبائی صوبے گجرات میں بھی، جسے بالعموم ترقی کے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ماسٹرز ڈگری رکھنے والے گیارہ بھکاری موجود ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمارچھ زمروں یعنی تعلیم یافتہ، تعلیم یافتہ تاہم میٹرک سے کم، میٹرک لیکن گریجویٹ سے کم، تکنیکی ڈپلوما، گریجویٹ لیکن تکنیکی ڈگری نہیں اور تکنیکی ڈگری یافتہ یا پوسٹ گریجویٹ پر مشتمل ہیں۔رپورٹ کے مطابق ملک میں گریجویٹ بھکاریوں کی سب سے زیادہ تعداد یعنی 540 صوبہ مغربی بنگال میں ہے۔ بھکاریوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے بھی یہی صوبہ پہلے نمبر پر ہے۔جب کہ500 سے زائد گریجویٹ بھکاریوں کے لحاظ سے اترپردیش اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔رپورٹ میں بعض بھکاریوں کے بھیک مانگنے کے اسباب کا بھی ذکر ہے۔ صوبہ گجرات کے شہر احمد آباد کے بھدر کالی مندر کے پاس بھیک مانگنے والے بارہویں پاس دنیش کھوڑا بھائی کا کہنا ہے کہ وہ بھیک اس لیے مانگتا ہے تاکہ زیادہ پیسے کما سکے۔ دنیش کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ بھیک مانگ کر 200 روپے سے زائد کما لیتا ہے۔ وہ پہلے ایک اسپتال میں وارڈ بوائے کا کام کرتا تھا، جہاں اسے دس گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور یومیہ صرف 100روپے کے حساب سے تنخواہ ملتی تھی لیکن یہ کہ اب کم محنت کرنے کے باوجود زیادہ آمدنی ہوجاتی ہے۔سدھیر بابو لال کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ بابو لال جب بیچلر آف کامرس کے تھرڈ ایئر میں فیل ہوگیا تو آنکھوں میں ڈھیر سارے خواب لے کر اپنا گھر چھوڑ کر احمد آباد آ گیا۔ یہاں اسے ملازمت تو مل گئی لیکن تنخواہ صرف تین ہزار روپے ماہانہ تھی اور اس کے بدلے میں اسے دس گھنٹے سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے ہفتے میں کوئی چھٹی بھی نہیں دی جاتی تھی۔گھر نہ ہونے کی وجہ سے بیوی چھوڑ کر چلی گئی۔ اب وہ بھیک مانگ کر روزانہ ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ کما لیتا ہے اور رات کو کسی فٹ پاتھ پر سو جاتا ہے۔۔ اگرچہ بھارت میں بھیک مانگنا اور بھیک دینا دونوں ہی جرم کے زمرے میں آتے ہیں تاہم مذہبی اور سماجی روایات کی وجہ سے اس لعنت کو ختم کرنے کی تمام تر حکومتی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ بھکاریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’مانو سادھنا‘ سے وابستہ بیرین جوشی کہتے ہیں کہ جب تک بھکاریوں کو آسانی سے پیسہ ملنا بند نہیں ہو گا، اس وقت تک ان سے یہ کام چھڑوانا اور انہیں معمول کی زندگی کی طرف لانا مشکل ہو گا۔ماہر سماجیات گورنگ جانی کا خیال ہے کہ ڈگری یافتہ افراد کا بھیک مانگنا ملک میں بے روزگاری کی سنگین صورت حال کو اجاگر کرتا ہے اور لوگ اس وقت تک بھیک مانگنے کے لیے مجبور ہوتے رہیں گے جب تک کہ انہیں کوئی باوقار ملازمت نہیں مل جاتی یا انہیں سوشل سیکورٹی فراہم نہیں کر دی جاتی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں