اتوار‬‮ ، 19 جنوری‬‮ 2025 

تحریک انصاف نے 2015کے اختتام سے کچھ دیرقبل ن لیگ کی کارکردگی کاپول کھول دیا

datetime 31  دسمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوزڈیسک)پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے سال 2015ء ختم ہونے پر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر رپورٹ جاری کر دی۔گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے کمیٹی ہال میں پریس کانفرنس میں انکا کہنا تھا کہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں86فیصد اضافہ ہو گیا،تھانہ کلچر تبدیل ہوا نہ عوام کو انصاف اور تحفظ ملا،پنجاب میں ایک کروڑ20لاکھ بچے تعلیم سے محروم،صوبے میں تعلیمی گراف نیچے آگیا، ایک سال کے دوران اڑھائی لاکھ بچوں سمیت11لاکھ افراد زہریلا پانی پینے سے ہلاک ہوگئے، ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویہ ہیں نہ آلات، صحت کی صورتحال تشویشناک ہوگئی، کسانوں کو زندہ درگور کر دیا گیا اور پنجاب حکومت بدلا ہے پنجاب کا نعرہ لگارہی ہے۔ پریس کانفرنس میں محمودالرشید نے کہا کہ مجھے حیرت ہے پنجاب کے نا اہل حکمرانوں پر جنہوں نے عوام کو صاف پانی دیا، معیاری تعلیم دی اور نہ ہی صحت کی بنیادی سہولیات۔۔۔ لیکن165بلین سے میٹرو ٹرین بنانے جا رہے ہیں۔، پورے پنجاب کو ادھیر کر رکھ دیا گیا ہے،سڑکوں کو کیک کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ ریلیف کی بجائے توسیعی منصوبوں کی آڑ میں بے رحمی سے لوگوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا یہ صحت، تعلیم اور صاف پانی کی فراہمی سے زیادہ اہم منصوبے ہیں۔۔۔ یہاں بچے ہسپتالوں کی سیڑھیوں پر پیداہو رہے ہیں، بچے وینٹی لیٹر کی کمی سے مر رہے ہیں، سکولوں میں چار دیواری ہے نہ چھتیں، فرنیچر ہے نہ پینے کا صاف پانی، لوگوں کی جان محفوظ ہے نہ مال،عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں طالبات کا گھر سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، صوبے میں کوئی قانون نہیں، جنگل کا راج ہے۔ عوام کو روٹی، نوجوانوں کو روزگار، قوم کے معماروں کو تعلیم اور صاف پانی دینے کی ضرورت ہے احساس تحفظ دینے کی ضرورت ہے لیکن بنیادی انسانی سہولیات کو چھوڑ کر ہم میٹرو اورنج ٹرین جیسے منصوبے بنانے پر بضد ہے۔اپوزیشن لیڈر نے صوبے میں امن وامان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ 2015-16میں امن وامان کی بحالی کیلئے ایک سو نو ارب25کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ بجٹ میں شہروں میں سیف سٹی پروگرام کا اجراء اور عوام کوروایتی تھانہ کلچر سے نجات دلانے کیلئے پنجاب بھر میں80پولیس سروس سنٹر کے قیام کا اعلان کیا گیا جسے آج تک عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ عوام کو بے رحم تھانہ کلچر اور ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں قتل، زیادتی، ڈکیتی سمیت سنگین نوعیت کے واقعات میں86فیصد اضافہ ہوا۔ جنوری2015سے نومبر2015تک قتل کے4198، اقدام قتل کے4805، اغواء کے12328، اغوا برائے تاوان کے73، زیادتی کے2555، اجتماعی زیادتی کے211، ڈکیتی ورابری کے16654 جبکہ تشدد کے14673مقدمات درج ہوئے۔ انکا کہنا تھا کہ دیہاتی علاقوں میں زیادتی سمیت سنگین نوعیت کے ہزاروں واقعات ہوئے جو تھانوں میں درج نہ ہوئے بلکہ بااثر اور سیاسی شخصیات کے دباؤ، رشوت ستانی کی وجہ سے رفع دفع کر دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی حفاظت کی بجائے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد وی وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہے، اس وقت میرٹ اور قانون کے برعکس131کی بجائے911شخصیات کو سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا اور مجموعی طور پر43ہزار918پولیس اہلکاروں اور افسران کو وی وی آئی پیز کی سکیورٹی پر تعینات ہیں ( ایلیٹ اور رینجرز الگ ہیں) صرف ماڈل ٹاؤن، جاتی عمرہ اور حکمران خاندان کی سکیورٹی پر ہزاروں پولیس اہلکار اور سیکڑوں ایلیٹ فورس کے جوان تعینات ہیں۔ پولیس اہلکار تھانوں میں سٹشنری، کاغذ اور ملزموں کی عدالت پیشی پر ہونے والے اخراجات خود ادا کر کے عوام کی جیب سے وصول کرتے ہیں۔ میاں محمودالرشید تعلیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ایک کروڑ20لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں،صوبے میں تعلیمی گراف نیچے آگیا، پنجاب بھر میں15ہزار گھوسٹ سکول ہیں جبکہ ہزاروں سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جنوبی پنجاب کے سکولوں پر وڈیرے قابض ہیں اورکئی میں گھوڑے بندھے ہیں ۔میاں محمودالرشید نے مزید کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل25-Aکے مطابق ریاست 5تا 15سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازم تعلیم فراہم کریگی لیکن بدقسمتی سے پنجاب کے حکمران آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی حقوق عوام تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کو تعلیم کے معاملات میں خود مختاری مل گئی لیکن اسکے باوجود صوبے نے تعلیمی شعبے میں ترقی نہیں کی ۔ ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث قوم کے معماروں کو تجارت کے نام پر قائم پرائیویٹ سکولوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ بجٹ2015-16میں تعلیم کیلئے310ارب20کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ یاد رہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران مختص ترقیاتی بجٹ میں سے 33فیصد رقم خرچ ہی نہیں ہوئی۔پنجاب کے سات ہزار سکولوں کی عمارتوں کو خطرناک جبکہ900کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے جس کے بعد بجٹ میں سکولوں کی ازسرنو تعمیر کیلئے8ارب51کروڑ91لا کھ روپے مختص کئے گئے جن میں سے ابتدائی طورپر 4 ارب25کروڑ95لاکھ73ہزار روپے جاری کر دیئے گئے جبکہ سکولوں میں بنیادی سہولتوں ( missing facilities) مثلاً چار دیواری،فرنیچر،پانی، لیٹرینوں کیلئے اڑھائی ارب جاری کئے گئے لیکن دسمبر2015تک6تا7فیصد رقم خرچ کی گئی۔ فنڈز کواورنج ٹرین منصوبے پر لگانے کیلئے دانستہ طور پر تعلیمی فنڈز کو سرنڈر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں دوسری جانب سپشل ایجوکیشن کیلئے مختص رقم(40کروڑ روپے) بھی خرچ نہیں کی گئی۔رواں ماہ وزیراعلیٰ کی جانب سے پنجاب ایچ ای سی کو ڈویلپمنٹ اور ریسرچ سمیت دیگر پروگراموں کیلئے90کروڑکی منظوری دی گئی جسکا تاحال استعمال نہیں ہوا۔ صاف پانی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ تقریر میں حکومت نے پینے کے صاف پانی کے مختلف منصوبوں پر 3سالہ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیابعد بھی اس پر کام کا آغاز نہ ہو سکا، یہاں تک کے 2002میں بھی مختلف مقامات پر200فلٹریشن پلانٹ لگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ لاہور میں پینے کے پانی میں انسانی فضلے کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے، حکومتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاہنہ کے مقام پرانسانی فضلے کی مقدار100ملی لیٹر میں 38جبکہ گجومتہ میں15پوائنٹ ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پانی میں انسانی فضلے کی مقدار صفر ہونی چاہئے۔اعدادوشمار کے مطابق ’’ ایک سال کے دوران اڑھائی لاکھ بچوں سمیت11لاکھ افراد زہریلا پانی پینے سے ہلاک ہوئے‘‘پنجاب کے مختلف شہر مثلا لاہور، اسلام آباد، بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، قصور، گجرات، ملتان، لیہ، سرگودہا، سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں سے پانی کے سمپل اکٹھے کرکے انکے ٹیسٹ کرائے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ان شہروں کا پانی پینے کے قابل نہیں ان میں آرسینک کی وسیع مقدار پائی گئی۔ حکومت کی غفلت کے باعث لاہور میں24،اسلام آباد75،اٹک28،بہاولپور50،فیصل آباد، گوجوانوالہ میں 68، گجرات، قصور میں78،ملتان48،سرگودہا77شیخوپورہ میں44 اور سیالکوٹ میں45فیصد لوگ نہ صرف گندہ اور آرسینک ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ناقص حکومتی حکمت عملی کے باعث دریائے راوی کو مرکزی گٹر کا درجہ دیدیا گیا ہے، سارے شہر کا انڈسٹریل ویسٹ اور سیوریج کا پانی راوی میں ڈالا جا رہا ہے، شہر میں دستیاب سبزیاں بھی اسی کے پانی سے اگائی جا رہی ہیں ۔حکومت نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف پانی کے منصوبوں پر کام شروع نہ کیا اور لوگوں کو مضر صحت پانی پینے پر مجبور کر دیا۔ گندہ پانی پینے سے پنجاب میں ہیپاٹائٹس، ہیضہ اور پیٹ کی مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں لیکن حکمران بدلا ہے پنجاب کا نعرہ لگا رہے ہیں۔صحت کے شعبے پر بات کرتے ہوئے میاں محمودالرشید کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ2015-16میں صحت عامہ کے فروغ اور عوام کو بہترین علاج معالجہ کی جدید سہولیات کی فراہمی کا اعلان کیا اور صحت کے شعبے کیلئے 166ارب13کروڑ روپے مختص کئے اور ہسپتالوں میں جان بجانے والی ادویہ اور آلات کی فراہمی کیلئے10ارب82کروڑ روپے مختص کئے لیکن عوام کو علاج کی بہترین سہولیات ملیں نہ ہسپتالوں کو ضروری آلات کی فراہمی یقینی بنائی گئی اسکا نتیجہ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں وینٹی لیٹر کی کمی کے باعث20دن میں36سے زائد بچوں کی ہلاکت کی شکل میں نکلا۔ اور زچہ بچہ کے ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث خواتین سیڑھیوں پر بچوں کو جنم دینے لگیں۔پنجاب میں سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود صحت کی صورتحال قابل تشویش ہے، سرکاری تو سرکاری پرائیویٹ ہسپتال بھی صحت کی بنیادی سہولیات نہیں دے رہے۔نومبر2015تک صحت پر مجموعی بجٹ کا صرف22فیصد خرچ ہو سکا اور ہسپتالوں کی حالت جوں کی توں رہی پیرامیڈیکل سٹاف اور ینگ ڈاکٹر سراپا احتجاج رہے اور مریض خوار ہوتے رہے۔ عالمی ادارہ صحت(who) کے مطابق1000افراد کی آبادی کیلئے کم ازکم ایک ڈاکٹر،200افراد کیلئے ایک ڈینٹیسٹ ہونا چاہئے جبکہ5مریضوں کی دیکھ بال کیلئے ایک نرس کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن بدلا ہے پنجاب کا نعرہ بلند کرنے والے نا اہل حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت پنجاب میں2173افراد کیلئے ایک ڈاکٹر،400افراد کیلئے ایک ڈینٹیسٹ ہے۔صرف لاہور کی بات کریں تو اس کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن یہاں صرف8 بڑے سرکاری ہسپتال ہیں اور پورا پنجاب یہاں علاج کیلئے آتا ہے، تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب میں سرکاری ہسپتال انتہائی کم ہیں اور ان میں جان بچانے والی ادویات ہیں نہ جدید علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، دوران زچگی جنوبی پنجاب میں شرح اموات کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے کئی مریض لاہور آنے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ زراعت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے جہاں تعلیم، صحت کے شعبے سے زیادتی کی اس سے کہیں زیادہ کسانوں پر ظلم کیا بلکہ یوں کہا جائے کہ انکو زندہ درگور کر دیا ہر گز غلط نہ ہوگا۔حکومت کی عوام دشمنی کا پہلا ثبوت ٹریکٹر سمیت تمام زرعی آلات اور ادویات پر 17فیصدجنرل سیلز ٹیکس عائد کرنا ہے، دوسرا دنیا بھر میں زراعت پر سبسڈی کا نظام ہے لیکن ظالم جابر حکمرانوں نے اسے ختم کر دیا۔ یورپ میں زراعت پر37،یوایس اے میں26،جاپان میں72، چین34 اور بھارت میں23 فیصد سبسڈی دی جاتی ہے۔ حکومت نے گزشتہ تین سال سے زراعت پر کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی اور منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر کو ختم کر کر دیاگیا۔ حکومت پنجاب نے سال2015-16 میں190ارب روپے گندم کی خریداری کیلئے مختص کئے اس سے40لاکھ ٹن گندم خریدنا تھی لیکن آج کا کاشتکار گندم گھر میں لیکر بیٹھا ہے اور 1300روپے سپورٹ پرائس کی بجائے1000تا1100روپے اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے پر مجبور تھا اور حکومت نے صرف26لاکھ ٹن گندم خریدی اور مراکز کو بند کر دیا۔آج کسان کو حکومتی مقررکردہ سپورٹ پرائس نہیں مل رہی، باسمپتی چاول کی قیمت2600کی بجائے1100،روئی 3200کی بجائے1800تا2100 ،گندم1300کی بجائے1100،1000روپے میں فروخت ہوئی۔86فیصد شوگر ملز حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ہیں۔ ملوں نے عدالتی حکم پر 180روپے فی من گنا تو خرید لیا لیکن124ارب روپے ادھار پر، رقوم کسانوں کو کٹوتی کر کے دی گئیں، آج بھی شوگر ملوں کے ذمے کسانوں کے12 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ حکومتی کی کسان دشمن پالیسی کی وجہ سے آج کا کسان بجلی کا بل ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کسان اور زرواعت کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا گیا۔آج کے کسان کھیتوں کی بجائے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ان پر دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ اورنج ٹرین پر وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ کوئی بھی شہری یا سیاسی جماعت، خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، ہر کوئی ملکی ترقی ،خوشحالی اور ملک میں ہونیوالے تعمیراتی منصوبوں سے خوش ہی ہوتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ منصوبے حقیقی معنوں میں عوام دوست ہوں ملکی ترقی اور معیشت کا باعث ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اورنج ٹرین کا منصوبہ165بلین کی لاگت سے اورنج ٹرین کا منصوبہ 27مہینوں میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائیگااور ہم20سے25سال میں اس کا قرض سود سمیت چینی بینک کو ادا کرینگے۔ حکومتی دعوے کے مطابق ٹرین پر روزانہ2لاکھ افراد سفر کرینگے لیکن سوال یہ ہے کہ اس منصوبے سے کتنے لوگ متاثر ہونگے۔۔ کتنے لوگوں کی اراضی اونے پونے داموں میں خریدی جائیگی۔۔۔ کتنے لوگوں کی دکانیں، پلازے اور مکانات مسمار کئے جائیں گے۔ میاں محمودالرشید نے کہا کہ قوام متحدہ بھی اورنج ٹرین منصوبے پر اپنے تحفظات بیان کر چکی ہے۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ قرضہ حاصل کرکے ایسے منصوبوں پر خرچ کرنا غیر مناسب ہے۔ رقم ہنر مند افراد کوروزگار کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ جیسے اصل مسائل پر خرچ کیا جانا چاہئے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں


’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…