اسلام آباد( نیوزڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت نے عمران خان کے کہنے پر صوبے میں وی آئی پی پروٹوکول پرپابندی لگا دی ہے۔ مگر نوٹیفکیشن کی تفصیلات میں موجود ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں تبدیلی کا کوئی وعدہ شامل نہیں، مرکز اور تمام صوبے پروٹوکول کو نئے نام” سیکورٹی تفصیلات“ سے پکارتے ہیں، عمران خان یا تو واقف نہیں یا عدم واقفیت کا بہانہ کررہے ہیں۔ کیونکہ خود انہیں پولیس اسکارٹ حاصل ہے۔ چیف سیکرٹری کے پی کے نے 26 دسمبر کو صوبے میں پروٹوکول کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری کیا لیکن آخری سطر میں واضح کیا کہ ” وی وی آئی پیز اور وی آئی پیز کو قانون اور سیکورٹی پروٹوکول کے مطابق معمول کے تحت لازمی سیکورٹی فراہم کی جائے گی ردعمل کیلئے صوبائی وزیراطلاعات دستیاب نہ ہوسکے تاہم صوبائی حکام سے بات چیت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعہ جن چیزوں پر پابندی لگائی گئی وہ پہلے بھی معمول کا حصہ نہیں تھیں۔ بااثر افراد کو پروٹوکول دینے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، حکومت و اپوزیشن کے کئی سیاستدان نہ صرف سلامتی کو خطرات کے نام پر پولیس کی سیکورٹی لے رہے ہیں بلکہ اس خدمت کے بدلے ادائیگی بھی نہیں کر رہے حالانکہ قانون میں یہ واضح ہے۔ رونامہ جنگ کے معروف صحافی عمرچیمہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال اپریل میں آر ٹی آئی قانون کے تحت حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر شائع خبر میں بتایا گیا تھا کہ بااثر شخصیات کو سیکورٹی کی فراہمی پر کے پی کے حکومت 279 ملین روپے سالانہ خرچ کرتی ہے، ان میں سے 81 فیصد موجودہ ارکا ن اسمبلی ہیں، مزید تجزیہ سے پتہ چلا تھا کہ ان شخصیات کی سیکورٹی پر قومی خزانے سے جتنی رقم خرچ ہو رہی ہے وہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ہے، مثلاً مولانا فضل الرحمٰن نے 2014ء میں 15688روپے انکم ٹیکس ادا کیا لیکن اسی سال ان کی سیکورٹی پر قومی خزانے سے ایک کروڑ 67ہزار روپے خرچ کئے گئے کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی سلامتی پر کے پی کے پولیس کی جانب سے خرچ ہونے والی سب سے بڑی رقم ہے، وی وی آئی پیز کی سیکورٹی کے حوالے، کے پی افسران کا کہنا تھا کہ بلیوبک عمران خان کے مقابلے میں زیادہ مصدقہ ہے کیونکہ ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اگرچہ ان کا اصرار تھا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا قافلہ تعداد کے لحاظ سے اوسط دجے کا ہے اور ان کی نقل و حرکت کے دوران ٹریفک کو بھی نہیں روکا جاتا لیکن میڈیارپورٹ بتاتی ہیں کہ پیر کو پشاور میں ان کے قافلے کے گزرنے کے انتظار میں 10منٹ تک ٹریفک کو روکا گیا، نوٹیفکیشن کے اجراءکے دوسرے دن اتوار کو نو شہرہ میں ٹی وی کیمروں نے ان کےگیارہ گاڑیوں پر مشتمل قافلے کی تصاویر دکھائیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پروٹوکول سے متعلق جاننے کی آر ٹی آئی درخواست کا جواب دلچسپ ہے” شہباز شریف اپنی ذاتی گاڑی میں سفر کرتے اور اپنی جیب سے فیول کی ادائیگی کرتے ہیں“ مگر سرکاری جواب میں ان کی سیکورٹی پرمامور پولیس اہلکاروں و گاڑیوں کی تعداد کے بارے میں نہیں بتایا گیا اور کہاکہ ” سیکورٹی کے مسائل کی بناء پر معلومات کی فراہمی مناسب نہیں“ اس سوال کی بنیاد مئی 2013ءکے انتخابات سے قبل کی ایک خبر بنی تھی جو اخبارات میں اپریل 2013ء میں شائع ہوئی تھی کہ نواز شریف، شہباز شریف او ر ان کے اہل خانہ کی سیکورٹی کے لئے 716پولیس اہلکار تعینات ہیں، اس وقت خاندان کاکوئی بھی فردحکومت میں نہیں تھا۔