تیونسیا(نیوز ڈیسک)تیونس کے صدر الباجی قائد السبیسی نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف عرب ممالک اور مسلم امہ کو ایک فورم پر متحد کر کے ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا ہے،سعودی عرب اور تیونس کے درمیان تاریخی تعلقات شاہ عبدالعزیز آل سعود کے دور میں واپس آ گئے ہیں۔ ریاض اور تیونس کے درمیان دوستانہ تعلقات اب 1951ء سے پہلے والی اس پوزیشن پر واپس لائے جا رہے ہیں جن کا آغاز سابق صدر حبیب بورقیبہ کے دور میں کیا گیا تھا۔ ماضی کے شاندار اور تاریخی تعلقات کو خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ مل کر آگے بڑھا رہے ہیں۔تیونسی صدر نے ان خیالات کا اظہار ایک عرب ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب صرف آج نہیں بلکہ ماضی میں بھی موثر سیاسی فیصلوں کا مرکز رہا۔ دنیا اور عرب خطیمیں تیزی کے ساتھ بدلتے حالات میں ہم سعودی عرب کی قیادت میں اپنی صفیں از سرنو مرتب کر رہے ہیں۔ اگرچہ مسلم امہ کو مجتمع کرنا غیرمعمولی اور بھاری ذمہ داری ہے مگر یہ کام سعودی عرب ہی کر سکتا ہے۔صدر قاید السبسی نے دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے عالمی اتحاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلامی دنیا کا اتحاد وقت کی ضرورت تھی، کیونکہ دہشت گردی کے حوالے سے دنیا عالم اسلام کے بدنیتی یا نیک نیتی کو جاننا چاہتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ داعش کیخلاف عرب ممالک کے سوا باقی پوری دنیا متحد ہے۔ مگر یہ غلط خیال ہے۔ تیونس سمیت تمام عرب ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس لیے تیونس دہشت گردی کے خلاف قائم ہونے والے اس اتحاد کے ساتھ ہے۔ایک سوال کے جواب میں صدر السبسی کا کہنا تھا کہ یہ بات خلاف منطق ہے کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے اور تیونس اس میں پیچھے رہے۔ اس جنگ میں ہم اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کریں گے۔ ہم تیونس کے عوام کو بھی اطمینان دلا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرات کے باوجود ہم یہ جنگ جیت کر رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کا نقصان تیونس کا نقصان ہے اور سعودی عرب کا فائدہ تیونس کا فائدہ تصور کیا جائے گا۔ تیونس کی عرب بلاک میں واپسی یورپ کے لیے مایوسی کی خبر ہو گی مگر تیونس اپنی علاقائی جیو۔ پولیٹیکل اہمیت سے انکار نہیں کرے گا۔ تیونس کے تعلقات جہاں ایک طرف مغربی دنیا کے ساتھ قائم ہیں وہی عرب اور اسلامی دنیا کے ساتھ بھی مزید مضبوط ہوں گے۔پڑوسی ملک لیبیا میں امن وامان کے قیام اور سیاسی استحکام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیونس لیبیا کے تمام دھڑوں سے رابطے میں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 500 کلومیٹر کی سرحد بھی دونوں طرف کی عوام کے لیے کھلی ہے۔